سیلاب کے چھ ماہ بعد بھی بچوں میں خوف
1 فروری 2011راجہ حسین اب بھی خوابوں میں ایسے مناظر دیکھ کر خوف زدہ ہو جاتا ہے کہ سیلابی پانی طاقت کے ساتھ اس کے گاؤں کی طرف بڑھ رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اسے پانی کی آواز تیز رفتار ریل گاڑی کی مانند سنائی دیتی ہے، ’خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں اللہ سے مدد طلب کر رہا ہوں۔‘
پاکستان کی تاریخ میں ان بدترین سیلابوں کے نتیجے میں گیارہ ملین افراد بے گھر ہوئے جبکہ کم ازکم دو ہزار افراد لقمہ اجل بنے۔ سیلاب کے نتیجے میں وسیع تر زرعی اراضی بھی تباہ ہو گئی، جس کے نتیجے میں ملکی اقتصادیات کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ اس قدرتی آفت کے نتیجے میں لوگوں کو شدید نفسیاتی دھچکا بھی پہنچا، جن میں بچے نمایاں ہیں۔
بین الاقوامی غیر سرکاری ادارے ’سیو دی چلڈرن‘ کی مختلف سٹڈیز کے مطابق پاکستان میں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں ستاسی فیصد بچے تناؤ کا شکار ہیں، پچہتر فیصد اپنے جذبات کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں جبکہ ستر فیصد پانی، اجنبی لوگوں اور کھلے مقامات کے علاوہ اندھیرے سے خوفزدہ ہوگئے ہیں۔
پاکستان کے صوبہ سندھ میں واقع میر حسن نامی ایک علاقے میں اس ادارے نے بچوں کو نفسیاتی سطح پر مدد دینے کے لیے ایک خصوصی سینٹر بنایا ہے۔ یہ علاقہ سیلاب کے نتیجے میں بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس سینٹر کا مقصد بچوں کا دھیان بٹانا ہے تاکہ وہ اپنی ہولناک یادوں کو بھول سکیں۔ یہاں بچوں کے لیے مختلف کھیلوں کا انتظام کیا گیا ہے۔
اس سینٹر کی منتظم اعلیٰ Ea Suzanne Akasha ہیں۔ ان کا تعلق ڈینش ریڈ کراس سے ہے۔ وہ کہتی ہیں،’ بچے اور بہت سے بالغ لوگ ذہنی طور پر شدید متاثر ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی نیند متاثر ہوئی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص کئی دنوں تک سو نہ سکے، تو نفسیاتی عارضے اسے گھیر سکتے ہیں،’ لوگ یہ سوچنے لگے ہیں کہ دیواروں میں سے مگر مچھ نکل کے ان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘
اس صورتحال میں ’ٹین ایجرز‘ بھی ذہنی طور پر شدید متاثر ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سات ملین افراد اب بھی بے گھر ہیں۔ سیو دی چلڈرن کے اعداد وشمار کے مطابق جو لوگ واپس اپنے گھروں کی طرف لوٹے ہیں، ان کے پاس کافی وسائل نہیں کہ وہ اپنی زندگی گزار سکیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: شادی خان سیف