سینکڑوں بھارتی طلبہ بیرون ملک کالجوں میں جعلسازی کا شکار
18 جون 2023
سینکڑوں بھارتی طلبہ کینیڈا میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے نام پرجعلسازوں کے استحصال کا شکار بن گئے ہیں۔ غیر میعاری اور فرضی یونیورسٹیوں میں داخلے کی وجہ سے ان کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔
اشتہار
بھارت کے 700 سے زائد طلبہ کو اس وقت کینیڈا سے ملک بدری کا سامنا ہے۔ تقریبا ً چار برس قبل کینیڈا میں تعلیم کے لیے انہوں نے اسٹڈی ویزا کے مقصد سے کالجوں کی طرف سے جاری کردہ جو ایڈمشن لیٹر جمع کرائے تھے، وہ فرضی پائے گئے ہیں۔
نئی دہلی نے اوٹاوا کے ساتھ اس مسئلے کو اٹھایا ہے جس کے بعد کینیڈیائی حکومت نے طلبہ کی ملک بدری کو فی الحال روک دیا ہے۔
تاہم بہت سے طالب علموں کا کہنا ہے کہ وہ ویزا ایجنٹوں اور ایجوکیشن کاونسلروں کے دھوکہ دہی کا شکار ہو رہے ہیں۔
ملک بدری کا خطرہ، طلبہ کا احتجاج
یہ معاملہ پہلی مرتبہ مارچ میں اس وقت سامنے آیا جب کینیڈا میں متعدد طلبہ نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مستقل رہائش کے لیے درخواستیں دیں۔ جس کے بعد کینیڈیائی سرحدی ایجنسی کو پتہ چلا کہ ان کے دستاویزات جعلی ہیں۔
ٹورنٹو میں ایک بھارتی طالب علم رندھیر کپور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یہ ہماری غلطی نہیں ہے۔ ہم طالب علموں کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے ان کو بھی دیکھیں۔"
رندھیر کپور کا کہنا تھا، "اگر اب غلط بیانی کے کیسز کی تحقیقات ہو رہی ہیں، جن میں اسٹڈی پرمٹ سے متعلق کیسز بھی شامل ہیں، تو پہلے اس کی جانچ کیوں نہیں کی گئی... اب کیوں؟"
جرمنی میں پڑھنے والے طالب علموں کا تعلق کن ممالک سے؟
جرمن مرکز برائے جامعات و تحقیق کے مطابق سن 2017/18 کے موسم گرما کے سمسٹر میں 2 لاکھ 82 ہزار غیر ملکی طالب علموں کو جرمن یونیورسٹیوں میں داخلہ دیا گیا۔ بین الاقوامی طالب علموں میں سے زیادہ تر کا تعلق ان ممالک سے ہے۔
تصویر: imago/Westend61
1۔ چین
سن 2018 میں جرمن یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے غیر ملکی طالب علموں میں سے تیرہ فیصد سے زائد کا تعلق چین سے تھا۔ چینی طالب علموں کی تعداد 37 ہزار کے قریب تھی۔
تصویر: picture-alliance
2۔ بھارت
دوسرے نمبر پر بھارتی طالب علم رہے۔ گزشتہ برس 17 ہزار سے زائد بھارتی شہری جرمن یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم تھے۔
تصویر: Melissa Bach Yildirim/AU Foto
3۔ آسٹریا
جرمنی کے پڑوسی ملک آسٹریا سے تعلق رکھنے والے گیارہ ہزار سے زائد طالب علم بھی گزشتہ برس جرمنی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
4۔ روس
گزشتہ برس جرمن جامعات میں پڑھے والے روسی طالب علموں کی تعداد بھی 11800 تھی۔
تصویر: Privat
5۔ اٹلی
یورپی ملک اٹلی سے تعلق رکھنے والے قریب 9 ہزار طالب علم جرمنی میں زیر تعلیم تھے۔
تصویر: DW/F. Görner
6۔ شام
سن 2015 میں اور اس کے بعد بھی لاکھوں شامی مہاجرین جرمنی پہنچے تھے اور اسی وجہ سے جرمن یونیورسٹیوں میں شامی طالب علموں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ گزشتہ برس ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد شامی شہری مختلف جرمن جامعات میں زیر تعلیم تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/C. Schmidt
7۔ ترکی
گزشتہ برس کے دوران سات ہزار چھ سو سے زائد ترک شہریوں کو بھی جرمن جامعات میں داخلہ ملا۔
تصویر: DW/Sabor Kohi
8۔ ایران
ایرانی طالب علموں کی بڑی تعداد بھی اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی کا رخ کرتی ہے۔ گزشتہ برس جرمن جامعات میں زیر تعلیم ایرانیوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9۔ کیمرون
افریقی ملک کیمرون سے تعلق رکھنے والے سات ہزار تین سو طالب علم گزشتہ برس جرمنی میں زیر تعلیم تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gentsch
پاکستانی طالب علم بیسویں نمبر پر
سن 2018 میں قریب پانچ ہزار پاکستانی طالب علم مختلف جرمن یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
تصویر: privat
10 تصاویر1 | 10
ایجوکیشن ایجنٹوں کے لیے منفعت بخش کاروبار
تدریسی ماہرین اس کے لیے ان نام نہاد ایجوکیشن کاونسلروں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں جو ہر سال بھارتی طلبہ کو بھاری بھرکم فیس کے بدلے میں بیرون ملک کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخلہ دلانے کی پیش کش کرتے ہیں۔
یہ ایجوکیشن کاونسلر عام طورپر غیر معیاری تعلیمی اداروں سے وابستہ ہوتے ہیں اور بعض نوجوانوں کو تعلیم کے حصول سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔
میڈیا ایجوکیٹر راکیش بٹابیال نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "بہت سے نوجوان امیگریشن کا راستہ تلاش کر رہے ہوتے ہیں ایسے میں کچھ لوگ تعلیم کے نام پر اس منافع بخش کاروبار میں ملوث ہیں۔"
چنڈی گڑھ میں انسٹیٹیوٹ فار ڈیولپمنٹ اینڈ کمیونیکیشن کے ڈائریکٹر پرمود کمار کا کہنا ہے کہ بیرون ملک اداروں کی جانچ بھی ناکام ثابت ہوئی۔
کمار بتاتے ہیں، "کینیڈا میں ایجوکیشن ریگولیٹری آرگنائزیشن نے تسلیم اور تصدیق شدہ تعلیمی اداروں کی ایک فہرست پبلک ڈومین میں شائع کر رکھی ہے اور بھارت میں مجاز ایجنٹوں نے بھی ایک سرٹیفیکٹ جاری کیا ہے کہ متعلقہ ادارہ کینیڈیائی ریگولیٹر کی طرف سے شائع شدہ فہرست میں شامل ہے یا نہیں۔"
کمار کا مشورہ ہے کہ امیگریشن حکام کو ایسے اداروں کے کورسیز کے لیے ویزا دینے سے انکار کر دینا چاہئے جو منظور شدہ اداروں کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔
ایسی تجاویزبھی دی گئی ہیں کہ کاونسلروں کی بھی زیادہ سے زیادہ جانچ پڑتال کی جانی چاہئے، لیکن ہر کوئی اس سے متفق نہیں ہے۔
اشوکا یونیورسٹی کے ڈین آف ریسرچ گوتم مینن نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "بیرون ملک ایجوکیشن ایجنٹوں پر شکنجہ کسنے کا امکان نہیں ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر آن لائن کام کرتے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "منظور شدہ یونیورسٹیوں کا اپنے یہاں داخل شدہ امیدواروں کی فہرستوں کے ساتھ ویزا دفاتر کے ساتھ براہ راست رابطہ کرنا ایک زیادہ بہتر متبادل ہوسکتا ہے۔"
غیر ملکی طلباء کے لئے جرمنی کی مقبول ترین یونیورسٹیاں
جرمنی کا شمار غیرملکی طلباء کے لیے پرکشش ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ انگریزی نہ بولنے والے ممالک میں یہ پہلے نمبر پر آتا ہے۔ یہ جرمنی کی دس مقبول ترین یونیورسٹیاں ہیں۔
تصویر: Peter Himsel
نمبر 10: کولون یونیورسٹی
یہ یونیورسٹی اُس شہر کولون میں واقع ہے، جہاں جرمنی کا سب سے بڑا تہوار ’کارنیوال‘ بھی منایا جاتا ہے۔ اس شہر کے لوگوں کا رویہ دیگر شہروں کی نسبت قدرے دوستانہ ہے۔ ساری دنیا سے اسٹوڈنٹس یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ یہاں سے ٹرین کے ذریعے چند ہی گھنٹوں میں دیگر بڑے یورپی شہروں ایمسٹرڈیم، برسلز اور پیرس پہنچا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نمبر 9:گوئتھے یونیورسٹی فرینکفرٹ
اس یونیورسٹی کا نام جرمنی کے مشہور شاعر یوہان وولفگانگ فان گوئتھے سے منسوب ہے۔ فرینکفرٹ ایک کثیر الثقافتی شہر ہے اور اپنی بلند و بالا عمارتوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ بہت سے مالیاتی اداروں اور بینکوں کے ہیڈکوارٹرز اسی شہر میں ہیں۔
تصویر: Goethe Universität Frankfurt
نمبر 8: یونیورسٹی ڈؤس بُرگ ایسن
اس یونیورسٹی میں 37 ہزار طلباء زیر تعلیم ہے اور اس کا شمار جرمنی کی بڑی یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ سن 2003ء میں دو ہمسایہ شہروں ڈوس بُرگ اور ایسن کی یونیورسٹیوں کا الحاق کر دیا گیا تھا۔ اس علاقے کو صنعتی علاقہ بھی کہا جاتا ہے اور اس کا شمار جرمنی کے گنجان آباد علاقوں میں بھی ہوتا ہے۔
تصویر: Klaus Lemke/SSC
نمبر 7: یونیورسٹی ہائیڈل برگ
اس یونیورسٹی کی بنیاد سن 1364ء میں رکھی گئی تھی اور اس کا شمار جرمنی کی قدیم ترین درسگاہوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال بھی کچھ عرصے تک اسی درس گاہ سے منسلک رہے۔ اس رومانوی شہر سے گزرنے والے دریائے نیکر کے قریب ایک سڑک کا نام بھی علامہ اقبال سے منسوب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نمبر 6: ہومبُولڈ یونیورسٹی برلن
اس تعلیمی ادارے کا شمار بھی جرمنی کے قدیم ترین اداروں میں ہوتا ہے۔ اس یونیورسٹی کے چند فارغ التحصیل طالب علموں نے بہت شہرت حاصل کی، جس کی وجہ سے اس دارے کو بھی ممتاز مقام حاصل ہوا۔ برلن شہر جرمنی کا دارالحکومت ہونے کے ساتھ ساتھ سیاحتی مرکز کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ پاکستانی سفارتخانہ بھی اسی شہر میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نمبر 5: ٹیکنیکل یونیورسٹی برلن
پانچویں نمبر پر بھی برلن شہر ہی کی یونیورسٹی آتی ہے۔ سیاحوں کے ساتھ ساتھ اسٹوڈنٹس بھی اس شہر سے محبت رکھتے ہیں۔ نہ صرف انجینئرنگ کے اعتبار سے اس یونیورسٹی کا معیار بہت بلند ہے بلکہ دیگر مغربی یورپی شہروں کی نسبت اس شہر میں رہائشی اخراجات بھی کم ہیں۔
تصویر: TU Berlin/Dahl
نمبر 4: یونیورسٹی (آر ڈبلیو ٹی ایچ) آخن
آخن شہر بیلجیم اور ہالینڈ کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس تکینیکی ادارے کا شمار جرمنی کی سب سے بڑے انجینئرنگ کے اداروں میں ہوتا ہے۔ اس دارے کا موٹو ’مستقبل کے بارے میں سوچو‘ ہے اور حقیقت میں بھی یہ ادارہ ایسا ہی کر رہا ہے۔ درجنوں پاکستانی طلباء یہاں بھی زیر تعلیم ہیں۔
تصویر: Peter Winandy
نمبر 3: ٹیکنیکل یونیورسٹی میونخ
جرمنی کے مشہور ثقافتی شہر میونخ میں دو بڑی یونیورسٹیاں ہیں اور ان میں سے ایک ٹیکنیکل یونیورسٹی میونخ ہے۔ اس دارے کے گزشتہ برس کے اعداد و شمار کے مطابق وہاں ہر پانچ میں سے ایک طالب علم غیر ملکی ہے۔
تصویر: Albert Scharger
نمبر 2: لُڈویگ ماکسی میلین یونیورسٹی میونخ
میونخ کی اس یونیورسٹی کا شمار بھی جرمنی کی قدیم ترین درس گاہوں میں ہوتا ہے۔ 34 نوبل انعام یافتہ افراد کا تعلق اس یونیورسٹی سے ہے۔ لائف اسٹائل میگزین نے گزشتہ برس اس شہر کو ’بہترین طرز زندگی‘ والا شہر قرار دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نمبر 1: فرائی یونیورسٹی برلن
جرمنی کی تعلیمی درسگاہ فرائی یونیورسٹی برلن کی بنیاد 1948ء میں رکھی گئی تھی۔ غیر ملکی اسٹوڈنٹس میں یہ تعلیمی ادارہ بھی بہت مشہور ہے۔ ہومبُولڈ یونیورسٹی برلن کے برعکس یہ سوویت زون میں نہیں تھی۔ اسی وجہ سے اس کا نام فرائی یعنی آزاد یونیورسٹی رکھا گیا تھا۔
تصویر: Peter Himsel
10 تصاویر1 | 10
بیرون ملک مقیم طلبہ کے خلاف کارروائیاں
بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق بھارتی طلبہ اس وقت دنیا کے 240 ملکوں کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کینیڈا، امریکہ، آسٹریلیا اور برطانیہ بھارتی طلبہ کی پسند میں سرفہرست ہے لیکن بھارتی طلبہ کی ایک بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم کے لیے ازبکستان، فلپائن، روس، آئرلینڈ، کرغزستان اور قازقستان بھی جاتی ہے۔
بھارت نے گزشتہ برس امریکہ میں سب سے زیادہ بین الاقوامی طلبہ کی تعداد کے لحا ظ سے چین کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔
آسٹریلیا کی کم از کم پانچ یونیورسٹیوں نے گزشتہ ماہ پنجاب، ہریانہ، راجستھان اور اترپردیش کی ریاستوں کے بھارتی طلبہ کی درخواستوں پر پابندیاں لگادی تھیں۔
اسی طرح برطانیہ کی حکومت نے حال ہی میں بھارتیوں سمیت بیرون ملک کے طلبہ کے حوالے سے ایک نئی امیگریشن پالیسی کا اعلان کیا تھا۔
برطانیہ کچھ عرصے سے ہجرت کی تعداد کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے اور لوگوں کو برطانیہ میں کام کرنے کے لیے پچھلے دروازے سے اسٹوڈنٹ ویزا کا استعمال کرنے پر روک لگانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
گزشتہ برس برطانیہ کی طرف سے جاری کیے گئے 486000 ویزوں میں سب سے بڑی تعداد اسٹوڈنٹس ویزے کی تھی۔
بین الاقوامی مطالعات کے پروفیسر سورن سنگھ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "بھارت سے بڑی تعداد میں بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے والے طلبہ چاہتے ہیں کہ ایجنٹوں پر کنٹرول کے لیے کوئی ضابطہ مقرر کیا جائے کیونکہ بیشتر طلبہ بیرون ملک کے قانون اور ضابطوں سے واقف نہیں ہوتے۔"
انہوں نے مزید کہا،" ان طلبہ کو بیرون ملک بھارتی مشنوں کے ساتھ رابطہ کرنا بھی فوری ضرورت ہے کیونکہ بیشتر شرائط صرف کاغذ پر ہی رہ جاتے ہیں۔"
دریں اثنا جعلی کالجوں کے حوالے سے تحقیقات کے حصے کے طورپر بھارتی حکام نے اب تک پنجاب سے ایک ٹریول ایجنٹ کو گرفتار کیا ہے، جس پر درجنوں بین الاقوامی طلبہ کے دستاویزات کی جعلسازی کا الزام ہے۔