سینکڑوں تارکین وطن بحیرہ روم میں ڈوب گئے، اطالوی صدر
شمشیر حیدر18 اپریل 2016
اطالوی صدر سرجیو متاریلا کے مطابق بحیرہ روم میں پیش آنے والے ایک بھیانک حادثے میں سینکڑوں تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہو گئے ہیں۔ مصر سے موصولہ غیر مصدقہ رپورٹوں کے مطابق ڈوبنے والے چار سو کے قریب تارکین وطن اٹلی جا رہے تھے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق بحیرہ روم میں تارکین وطن کی کشتی کو پیش آنے والے حادثے میں سینکڑوں پناہ گزین ہلاک ہو گئے ہیں۔
اطالوی میڈیا کی جانب سے نشر کی گئی غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ان تارکین وطن کی کشتی کو یہ حادثہ بحیرہ روم میں مصری ساحل کے قریب پیش آیا اور اس سانحے میں چار سو کے قریب تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔
اٹلی کے دارالحکومت روم میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اطالوی صدر سرجیو متاریلا کا کہنا تھا، ’’بحیرہ روم میں تارکین وطن کی ایک اور کشتی کو ایک بھیانک حادثہ پیش آیا ہے، جس میں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔‘‘ تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
قبل ازیں برطانوی نشریاتی ادارے کی عربی سروس نے بھی نامعلوم مصری ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ اس المناک حادثے میں چار سو سے زائد انسان سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس ادارے کے مطابق ہلاک ہونے والے زیادہ تر پناہ گزینوں کا تعلق صومالیہ سے تھا۔
پوپ فرانسس کا دورہ لیسبوس
01:26
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی لکسمبرگ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اطالوی وزیر خارجہ پاؤلو جینٹیلونی کا کہنا تھا، ’’یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ہمیں گزشتہ برس لیبیا کے ساحلوں کے قریب پیش آنے والے المناک حادثے کی طرح کے ایک اور بھیانک حادثے کا سامنا ہے۔‘‘
انہوں نے ڈوبنے والے تارکین وطن کی تعداد کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔ جینٹیلونی لکسمبرگ میں منعقدہ یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کر رہے تھے۔
اس سے پہلے جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے بھی پیر کی صبح بتایا تھا کہ انہیں بحیرہ روم میں پیش آنے والے المناک حادثے کے بارے میں معلوم ہوا ہے، جس میں تین سو سے زائد پناہ گزین ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم ان کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ ابھی اس واقعے کی حتمی تصدیق نہیں کر سکتے۔
جرمن نیوز ایجنسی نے اس بارے میں مصری دارالحکومت قاہرہ میں قائم صومالیہ کے سفارت خانے سے بھی رابطہ کیا تاہم وہاں سے بھی اس واقعے کی تصدیق نہ ہو سکی۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے بعد عملی طور پر بحیرہ ایجیئن کے ذریعے مغربی یورپ پہنچنے کا راستہ عملی طور پر بند ہو چکا ہے۔ اس معاہدے کے بعد شمالی افریقی ممالک سے بحیرہ روم عبور کر کے اٹلی کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ بحیرہ ایجیئن کی نسبت یہ سمندری راستہ زیادہ طویل اور خطرناک ہے۔
گزشتہ برس اٹھارہ اپریل کے روز ہی لیبیا سے اٹلی کی جانب گامزن تارکین وطن کی ایک کشتی کو ایک بھیانک حادثہ پیش آیا تھا جس میں سینکڑوں تارکین وطن ہلاک ہو گئے تھے۔ مذکورہ کشتی میں اب بھی سینکڑوں پناہ گزینوں کی لاشیں زیر آب پھنسی ہوئی ہیں اور اٹلی نے انہیں نکالنے کے لیے ایک نیا مشن حال ہی میں شروع کیا تھا۔
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔