ایک رپورٹ کے مطابق ایک ہزار سے زائد سخت عقیدے کے جہادیوں کے پاس جرمن پاسپورٹ ہے۔ ان میں سے کئی جرمنی چھوڑ کر شام یا عراق میں دہشت گرد گروپوں کی مدد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اشتہار
جرمن میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق ایک ہزار سے زائد کٹر مسلمان جرمن پاسپورٹ کے حامل ہیں اور ان میں کئی اس وقت شام یا عراق میں دہشت گرد تنظیموں کی مدد کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ انتہائی اہم معلومات جرمن حکومت نے پارلیمنٹ میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت کے ایک رکن کے سوال کے جواب میں بتائی ہیں۔
فنکے میڈیا گروپ کے مطابق جرمن پاسپورٹ کے حامل بہت سارے سخت گیر مسلمان تنازعات کے علاقوں کی جانب روانہ ہو چکے ہیں۔ حکومت نے سلامتی کے اداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایسے افراد یقینی طور پر ’جہادی‘ قرار دیے جا سکتے ہیں لیکن اس وقت ایسے افراد کی بیرون جرمنی روانہ ہونے کی شرح خاصی کم ہے۔
فنکے میڈیا گروپ کی رپورٹ کے مطابق جرمن پاسپورٹ حاصل کرنے والوں میں 243 کا تعلق ترکی میں کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (PKK) اور کردستلان ڈیموکریٹک یونین پارٹی سے ہے۔ جرمنی میں کردستان ورکر پارٹی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے۔
شام و عراق میں کرد علاقوں کے بعض حصوں میں ابھی بھی ’اسلامک اسٹیٹ’ فعال خیال کی جاتی ہے۔ اس وقت کئی جرمن سخت گیر مسلمان شام، ترکی اور عراق میں جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے الزام کے تحت جیلوں میں مقید ہیں۔ کئی مقید جہادیوں کے خاندان کی عورتیں اور بچے واپس جرمنی لوٹ چکے ہیں۔
انگیلا میرکل کی سابقہ حکومت میں ایک تجویز پر اتفاق پایا گیا تھا کہ لوٹنے والے جہادیوں کے پاس اگر دوہری قومیت ہوئی تو ان کی جرمن شہریت کو جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی بنیاد پر منسوخ کر دیا جائے۔ بائیں بازو کی سیاسی جماعت اس تجویز کو غیر دستوری خیال کرتی ہے اور اس سے جرمن شہریوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
دوسری جانب چانسلر انگیلا میرکل کی حکومت کی اتحادی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے بعض ارکان بھی اس دستوری تجویز پر ناراضی کا اظہار کرتے ہیں۔ ان میں ایک اولی گروئٹش ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ تجویز علامتی ہے اور اس کے سیاسی مقاصد ہو سکتے ہیں لیکن ضرورت اس کی ہے کہ ایسے سخت گیر مسلمانوں کو اُن کی سرگرمیوں پر سزا دینے کے ساتھ ساتھ اُن کے بنیاد پرستانہ نظریات کو فوری طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔
جرمنی میں مساجد کے دروازے سب کے لیے کھل گئے
جرمنی میں قریب ایک ہزار مساجد کے دروازے تین اکتوبر کو تمام افراد کے لیے کھول دیے گئے ہیں۔ یہی دن سابقہ مشرقی اور مغربی جرمن ریاستوں کے اتحاد کی سال گرہ کا دن بھی ہے۔
تصویر: Ditib
جرمن مساجد، جرمن اتحاد
جرمنی میں مساجد کے دوازے سب کے لیے کھول دینے کا دن سن 1997 سے منایا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک اس روز منایا جاتا ہے، جس روز جرمنی بھر میں یوم اتحاد کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن کا تعین جان بوجھ کر مسلمانوں اور جرمن عوام کے درمیان ربط کی ایک علامت کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے مطابق آج کے دن قریب ایک لاکھ افراد مختلف مساجد کا دورہ کریں گے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
مساجد سب کے لیے
آج کے دن مسلم برادری مساجد میں آنے والوں کو اسلام سے متعلق بتاتی ہے۔ مساجد کو کسی عبادت گاہ سے آگے کے کردار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ مسلم برادری کے میل ملاپ اور سماجی رابط کی جگہ بھی ہے۔
تصویر: Henning Kaiser/dpa/picture-alliance
بندگی اور ضوابط
اسلام کو بہتر انداز سے سمجھنے کے لیے بندگی کے طریقے اور ضوابط بتائے جاتے ہیں۔ انہی ضوابط میں سے ایک یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے جوتے اتار دیے جائیں۔ یہ عمل صفائی اور پاکیزگی کا عکاس بھی ہے کیوں کہ نمازی نماز کے دوران اپنا ماتھا قالین پر ٹیکتے ہیں، اس لیے یہ جگہ ہر صورت میں صاف ہونا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
تعمیرات اور تاریخ
زیادہ تر مساجد میں آنے والے غیرمسلموں کو مسجد بھر کا دورہ کرایا جاتا ہے۔ اس تصویر میں کولون کے نواحی علاقے ہیُورتھ کی ایک مسجد ہے، جہاں آنے والے افراد مسلم طرز تعمیر کی تصاویر لے سکتے ہیں۔ اس طرح ان افراد کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جرمنی میں مسلمان کس طرح ملتے اور ایک برادری بنتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
روحانیت کو سمجھنے کی کوشش
ڈوئسبرگ کی یہ مرکزی مسجد سن 2008ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ اس مسجد کا رخ کرنے والوں کو نہ صرف مسجد کے مختلف حصے دکھائے جاتے ہیں، بلکہ یہاں آنے والے ظہر اور عصر کی نماز ادا کرنے والے افراد کو دوران عبادت دیکھ بھی سکتے ہیں۔ اس کے بعد مہمانوں کو چائے بھی پیش کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
عبادات کی وضاحت
مسلمانوں کے عبادت کے طریقہ کار کو متعارف کرانا تین اکتوبر کو منائے جانے والے اس دن کا ایک اور خاصا ہے۔ تاہم مسجد کا نماز کے لیے مخصوص حصہ یہاں آنے والے غیرمسلموں کے لیے نہیں ہوتا۔ اس تصویر میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Hanschke
تحفے میں تسبیح
اس بچے کے پاس ایک تسبیح ہے، جو اسے فرینکفرٹ کی ایک مسجد میں دی گئی۔ نمازی اس پر ورد کرتے ہیں۔ تسبیح کو اسلام میں مسبحہ بھی کہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بین الثقافتی مکالمت
جرمن مساجد اپنے دروازے مختلف دیگر مواقع پر بھی کھولتی ہیں۔ مثال کے طور پر جرمن کیتھولک کنوینشن کی طرف سے کیتھولک راہبوں اور راہباؤں کو مساجد دکھائی جاتی ہیں۔ اس تصویر میں جرمن شہر من ہائم کی ایک مسجد میں یہی کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے مواقع مسیحیت اور اسلام کے درمیان بہتر تعلقات کی راہ ہوار کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
غلط فہمیوں کا خاتمہ
ڈریسڈن شہر کی مساجد ثقافتی اقدار کی نمائش بھی کرتی ہیں۔ المصطفیٰ مسجد نے اس دن کے موقع پر منعقدہ تقریبات کی فہرست شائع کی ہے۔ ان میں اسلام، پیغمبر اسلام اور قرآن سے متعلق لیکچرز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ یہاں مسجد میں قالینوں پر بیٹھ کر مختلف موضوعات پر بات چیت بھی کرتے ہیں۔