1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سینکڑوں روہنگیا باشندے انڈونیشی جزیرے پر پہنچ گئے

7 ستمبر 2020

انڈونیشیا کے صوبے آچے کے ایک ساحل پر قریب تین سو روہنگیا باشندے پہنچے ہیں، جنہیں پیر کے روز پولیس، فوج اور ریڈ کراس کے رضا کاروں نے ایک آپریشن کے ذریعے وہاں سے نکال لیا۔

Indonesien Provinz Aceh | gestrandete Rohingya
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Z. Maulana

مقامی باشندوں کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کا یہ گروپ ایک کشتی کے ذریعے یوننگ بلانگ کے ساحل پر پہنچا۔ اس علاقے کے 'سب گروپ ملٹری کمانڈر‘رونی ماہندرا کے مطابق یہ روہنگیا باشندے صوبے آچے کے شہر سماٹرا کے ڈسٹرکٹ بندا ساکتی پہنچ کر تین گروپوں میں تقسیم ہو گئے۔ رونی ماہندرا نے کہا،''ہم ان تک رسائی کی کوشش کرتے رہے اور اس کے لیے ہم نے مقامی باشندوں کی مدد بھی حاصل کی۔ اُن سے کہا کہ وہ ان تین سو کے قریب روہنگیا باشندوں کو اکٹھا کرنے میں ہمارے ساتھ تعاون کریں۔‘‘

اطلاعات کے مطابق مقامی پولیس، فوج اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے رضاکاروں نے مل کر 181 خواتین، 100 مردوں اور 14 روہنگیا بچوں کو پناہ دینے کا بندوبست کیا۔

انڈونیشیا کے صوبے آچے کے ساحل پر پپہنچنے والے روہنگیا باشندے۔ تصویر: picture-alliance/AP Photo/Z. Maulana

رواں سال جون میں انڈونیشی ماہی گیروں کو 94 بھوکے اور ناتواں روہنگیا باشندوں کو انڈونیشیا کے مغربی صوبے آچے کے ساحلی علاقے میں ملے تھے۔ یہ بے یار و مددگار روہنگیا دراصل لکڑی کی ایک کشتی پر سوار ہو کر یہاں تک پہنچے تھے۔ روہنگیا مسلمانوں کے اس گروپ کی انڈونیشی ساحل تک رسائی روہنگیا باشندوں کی اُس جدوجہد کا ایک حصہ ہے جو انہوں نے ایک عرصے سے جاری رکھی ہوئی ہے۔ بُودھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت پر مشتمل ملک میانمار جسے ماضی میں برما کہا جاتا تھا، میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ملٹری کریک ڈاؤن کے بعد سے لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا باشندے پناہ کی تلاش میں پڑوسی ملک بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہوئے جہاں کے مہاجر کیمپوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے اور ان گنجان آبادی والے کیمپوں میں روہنگیا مسلمان کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ایک لکڑی کی کشتی پر قریب 300 روہنگیا باشندے سوار تھے۔تصویر: Getty Images/AFP/R. Mirza

انسانی حقوق کے لیے سرگرم عناصر اور تنظیموں نے یہ خدشات ظاہر کیے ہیں کہ بہت بڑی تعداد میں سمندروں  کا رُخ کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کو ایک طرف میانمار میں اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم، ایذا رسانی اور تعاقب کا سامنا ہے تو دوسری جانب جان بچا کر اور فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچنے پر انہیں جن مہاجر کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے اُن کی صورتحال ناقابل بیان ہے۔ ان کیمپوں میں روہنگیا باشندوں کو صعوبتیں اُٹھانا پڑ رہی ہیں۔ ان حالات میں انسانوں کی اسمگلننگ کرنے والے  ان نہتے انسانوں کو محفوظ اور بہتر زندگی اور مستقبل کا سبز باغ دکھا کر انہیں بیرون ملک پہنچانے کا وعدہ کر کے پیسے کما رہے ہیں۔ مگر ماہرین کے مطابق روہنگیا باشندوں کا مستقبل مزید تاریک نظر آ رہا ہے۔

ک م / اا/ اے پی ای

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں