سینیگال سے یورپ کا سفر: اقتصادی مہاجرین کی تعداد میں اضافہ
5 اکتوبر 2016جنوب مشرقی سینیگال کے ایک گاؤں میں بِنچ پر بیٹھے آلیو تھیئم کے ذہن میں بس ایک ہی بات گردش کر رہی ہے۔ وہ بھی سینیگال کے بہت سے دوسرے نوجوان افراد کی طرح یورپ جانا چاہتا ہے۔
اٹھائیس سالہ آلیو تھیئم اپنی بیوی اور دو بچوں کو تنہا چھوڑ کر یورپ کے سفر پر روانہ کیوں ہونا چاہتا ہے؟
خبر رساں ادارے تھومس روئٹرز فورم سے بات کرتے ہوئے تھیئم نے کہا،’’ یہاں میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ اسی لیے میں یورپ جانا چاہتا ہوں۔ جو واحد چیز ہم جانتے ہیں وہ ہے مہاجرت اور ہمارے نزدیک مہاجرت کا مطلب کامیابی ہے۔‘‘
ہر سال ہزاروں سینیگالی مرد صحرائے سہارا اور بحیرہء روم کا پُر خطر سفر اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ناکام ہوتے ہیں اور کچھ اس سفر کے دوران ہلاک ہو جاتے ہیں۔
بین الاقوامی ادارہء مہاجرت کے مطابق سینیگال اُن پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں سے تارکینِ وطن رواں برس اٹلی پہنچے ہیں۔ تاہم سینیگالی باشندوں کے ترکِ وطن کرنے کا سبب جنگ نہیں ہے بلکہ ان کو اقتصادی مہاجرین تصور کیا جاتا ہے جو اپنے اور اہلِ خانہ کے لیے بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔
گزشتہ کئی عشروں میں یہ یقین کہ یورپ ہی معاشی ترقی کا دروازہ ہے، اور بھی پختہ ہوا جب بہت سے سینیاگالی باشندوں نے یورپ بالخصوص فرانس کی طرف ہجرت کی اور سینیگال میں اپنے اہلِ خانہ کو پیسے بھیجے۔
افریقہ کی مستحکم ترین اور تیزی سے جمہوری اقدار اپناتی اقوام میں سے ایک ہونے کے با وجود، سینیگال میں ماہانہ اوسط تنخواہ سو امریکی ڈالر سے بھی کم ہے اور ہر آٹھ میں سے ایک شخص بے روز گار ہے۔
تارکینِ وطن میں عالمی سطح پر اضافے کے ساتھ ساتھ اس بحث میں بھی اضافہ ہوا ہےکہ آیا غربت کے باعث ہجرت کرنے والے تارکین وطن کو شورش اور جنگ زدہ ممالک کے مہاجرین سے مختلف انداز میں ڈِیل کرنا چاہیے؟
سینیگال کے غریب ترین علاقے ٹامبا کونڈا کے نا خواندہ، غیر تربیت یافتہ رہائشی آلیوتھئیم اور اس کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اُنہیں حکومت نے بالکل تنہا چھوڑ دیا ہے۔اُن کے مطابق وہاں ملازمتیں نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ پیشہ ورانہ تربیت کے منصوبوں کا بھی فقدان ہے۔