سیکسنی انہالٹ میں الیکشن: میرکل کی پارٹی کی فتح جو ضروری تھی
7 جون 2021
مشرقی جرمن صوبے سیکسنی انہالٹ میں اتوار چھ جون کو ہونے والے الیکشن اس سال عام انتخابات سے قبل آخری علاقائی الیکشن تھے۔ اس الیکشن میں حیران کن فتح چانسلر میرکل کی پارٹی سی ڈی یو کو ملی، جس کی اس جماعت کو بڑی ضرورت تھی۔
اشتہار
جرمنی میں اس سال موسم خزاں میں ہونے والے قومی انتخابات سے قبل چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین اپنے لیے سیکسنی کے صوبائی الیکشن کے بہت خوش کن نتائج سے زیادہ بہتر کسی انتخابی لانچنگ پیڈ کی خواہش تو کر ہی نہیں سکتی تھی۔
گزشتہ چند دنوں کے دوران رائے عامہ کے جائزے بتا رہے تھے کہ سیکسنی انہالٹ میں سی ڈی یو کا انتہائی دائیں بازو کی اسلام اور تارکین وطن کی مخالفت کرنے والے پارٹی اے ایف ڈی یا 'متبادل برائے جرمنی‘ کے ساتھ سخت مقابلہ تھا۔ لیکن عین رائے دہی کے دن کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے لیے عوامی حمایت سولہ فیصد زیادہ ہو گئی۔
سی ڈی یو کے لیے عوامی حمایت گزشتہ الیکشن سے زیادہ
یہ صوبائی الیکشن جرمنی میں اگلے عام انتخابات سے پہلے آخری صوبائی الیکشن تھے اور ان کے سرکاری نتائج کے مطابق میرکل کی پارٹی سی ڈی یو کو 37.1 فیصد ووٹ ملے۔ اس کے مقابلے میں انتہائی دائیں باز وکی اے ایف ڈی کو 20.8 فیصد عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے لیے بہت حوصلہ افز بات یہ ہے کہ اس مرتبہ اس ریاست میں اسے 2016ء کے صوبائی الیکشن کے مقابلے میں سات فیصد زیادہ ووٹ ملے۔
کیمنِٹس کے انتہائی دائیں بازو اور نازی سیلیوٹ کرتا بھیڑیا
جرمنی میں کئی مقامات پر تانبے سے بنے بھیڑیے کے ایسے مجسمے نصب کیے گئے ہیں جو نازی دور کے سیلیوٹ کے حامل ہیں۔ اب ان مجسموں کو مشرقی شہر کیمنٹس میں بھی نصب کیا گیا ہے، جہاں ان دنوں اجانب دشمنی کی وجہ سے خوف پایا جا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’بھیڑیوں کی واپسی‘
جرمنی میں تانبے کے 66 مجسموں کی ایک سیریز تخلیق کی گئی، یہ نازی سیلیوٹ کا انداز بھی اپنائے ہوئے ہیں، یہ جرمنی میں ممنوع ہے۔ مجسمہ ساز رائنر اوپولکا کے بقول یہ تخلیق نسل پرستی کے خطرے کی علامت ہے۔ تاہم انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے ہمدرد خود کو بھیڑیے سے تشبیہ دینے لگے ہیں۔ مہاجرت مخالف AFD کے رہنما ہوئکے نے کہا ہے کہ ہٹلر کے پراپیگنڈا وزیر گوئبلز نے 1928ء میں بھیڑیے کی اصطلاح استعمال کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
کیمنٹس میں دس بھیڑیے
فنکار رائنر اوپولکا نے اپنے یہ مجسمے ایسے مقامات پر لگائے ہیں جہاں اجانب دشمنی اور نسل پرستانہ رویے پائے جاتے ہیں۔ ان کو ڈریسڈن میں پیگیڈا تحریک کی ریلیوں کے دوران نصب کیا گیا تھا۔ میونخ کی عدالت کے باہر بھی یہ مجسمے اُس وقت نصب کیے گئے تھے جب انتہائی دائیں بازو کی خاتون بیاٹے شاپے کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ شاپے نیو نازی گروپ این ایس یو کے دہشت گردانہ سیل کی رکن تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
انتہائی دائیں بازو کے بھیڑیے
کیمنٹس شہر میں گزشتہ جمعے کو انتہائی دائیں بازو کی ایک نئی ریلی کا انتظام کارل مارکس کے مجسمے اور تانبے کے بھیڑیے کے سامنے کیا گیا۔ اس ریلی میں انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں نے بھیڑیے کے پہناوے میں جارح رویہ اپنا رکھا تھا اور بعض نے آنکھوں کو چھپا رکھا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
’کیمنٹس میں جرأت ہے‘
رواں برس ماہِ ستمبر کے اوائل میں انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں کی وجہ سے کیمنٹس کے تشخص پر انگلیاں بھی اٹھیں۔ اس دوران مرکزِ شہر میں نسل پرستی اور قوم پرستی کی مذمت کے جہاں بینر لگائے گئے وہاں ایک بڑے میوزیکل کنسرٹ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس کنسرٹ میں 65 ہزار افراد نے شرکت کر کے واضح کیا کہ اُن کی تعداد دائیں بازو کے قوم پرستوں سے زیادہ ہے۔
تصویر: Reuters/T. Schle
شہر کے تشخص پر نشان
کیمنِٹس کی شہری انتظامیہ نے انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان سے فاصلہ اختیار کر رکھا ہے۔ سٹی ایڈمنسٹریشن کے کئی اہلکاروں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی ریلیوں سے کیمنِٹس کا تشخص مستقلاً مسخ ہو سکتا ہے۔ شہری انتظامیہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایسے انتہا پسندوں کے خلاف عدالتی عمل کو سرعت کے ساتھ مکمل کیا جائے جنہوں نے نفرت کو فروغ دے کر تشدد اور مظاہروں کو ہوا دی تھی۔
اس کے برعکس اے ایف ڈی کی عوامی حمایت میں 2016ء کے مقابلے میں تین فیصد کی کمی ہوئی۔ اس مرتبہ ملنے والے تقریباﹰ 21 فیصد ووٹ اے ایف ڈی کے لیے اس وجہ سے ناامیدی کا سبب بنے ہیں کہ یہ جماعت تو خود کو اپنی حد تک صوبائی دارالحکومت ماگڈے بُرگ میں نئی حکومت میں شامل جماعت کے طور پر بھی دیکھ رہی تھی۔
کئی دیگر جماعتوں کی کامیابی توقعات سے کم
سیکسنی انہالٹ میں کل ہونے والے الیکشن کے نتائج ملک کی کئی دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے ان کی توقعات سے کم رہے۔ مثلاﹰ بائیں بازو کی سیاسی جماعت 'دی لِنکے‘ کو 11 فیصد، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کو 8.4 فیصد، فری ڈیموکریٹس کی جماعت ایف ڈی پی کو 6.4 فیصد اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کو 5.9 فیصد ووٹ ملے۔ اس طرح نئی صوبائی پارلیمان میں چھ سیاسی جماعتوں کو نمائندگی حاصل ہو گی۔
اشتہار
رائنر ہازےلوف ہی سربراہ حکومت رہیں گے
ماگڈے بُرگ میں صوبائی حکومت کے سربراہ اب تک چانسلر انگیلا میرکل کی پارٹی کے رائنر ہازےلوف چلے آ رہے ہیں۔ اب اگلے سربراہ حکومت بھی وہی ہوں گے اور انہیں دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ کن اعتدال پسند جماعتوں کے ساتھ مل کر دوبارہ ایک مخلوط حکومت بنا سکتے ہیں۔
انگیلا میرکل کے دور اقتدار کے کچھ انتہائی اہم لمحات
انگیلا میرکل کے قدامت پسند سیاسی اتحاد نے چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی جرمن چانسلر کے عہدے پر فائز ہونے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M.Schreiber
ہیلموٹ کوہل کی جانشین
انگیلا میرکل ہیلموٹ کوہل کے بعد پہلی مرتبہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی نگران سربراہ بنی تھیں۔ انہیں اس سیاسی پارٹی کی قیادت کو اب تقریبا سترہ برس ہو چکے ہیں جبکہ انہوں نے سن دو ہزار پانچ میں پہلی مرتبہ جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا۔
تصویر: imago/Kolvenbach
پہلا حلف
’میں جرمنی کی خدمت کرنا چاہتی ہوں‘، بائیس نومبر 2005 کو انگیلا میرکل نے یہ کہتے ہوئے پہلی مرتبہ چانسلر شپ کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ انہیں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر بننے کا اعزاز تو حاصل ہوا ہی تھا لیکن ساتھ ہی وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی ایسی پہلی شخصیت بھی بنیں، جس کا تعلق سابقہ مشرقی جرمنی سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Bergmann
میرکل اور دلائی لامہ کی ملاقات
میرکل نے بطور چانسلر اپنے دور کا آغاز انتہائی عجزوانکساری سے کیا تاہم جلد ہی انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو لوہا منوا لیا۔ 2007ء میں میرکل نے دلائی لامہ سے ملاقات کی، جس سے بیجنگ حکومت ناخوش ہوئی اور ساتھ ہی جرمن اور چینی تعلقات میں بھی سرد مہری پیدا ہوئی۔ تاہم میرکل انسانی حقوق کو مقدم رکھتے ہوئے دیگر تمام تحفظات کو نظر انداز کرنا چاہتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schreiber
پوٹن کے کتے سے خوفزدہ کون؟
میرکل نہ صرف مضبوط اعصاب کی مالک ہیں بلکہ وہ منطق کا دامن بھی کبھی نہیں چھوڑتیں۔ تاہم روسی صدر پوٹن جرمن چانسلر کا امتحان لینا چاہتے تھے۔ میرکل کتوں سے خوفزدہ ہوتی ہیں، یہ بات پوٹن کو معلوم ہو گئی۔ سن 2007 میں جب میرکل روس کے دورے پر سوچی پہنچیں تو پوٹن نے اپنے کتے کونی کو بلاروک ٹوک میرکل کے قریب جانے دیا۔ تاہم میرکل نے میڈیا کے موجودگی میں مضبوط اعصاب دکھائے اور خوف کا کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Astakhov
پرسکون میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل مسائل کے باوجود بھی پرسکون دکھائی دیتی ہیں۔ سن 2008 میں جب عالمی مالیاتی بحران پیدا ہوا تو میرکل نے یورو کو مضبوط بنانے کی خاطر بہت زیادہ محنت کی۔ اس بحران میں ان کی حکمت عملی نے میرکل کو’بحرانوں کو حل کرنے والی شخصیت‘ بنا ڈالا۔ میرکل کی کوششوں کی وجہ سے ہی اس بحران میں جرمنی کی معیشت زیادہ متاثر نہیں ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/epa/H. Villalobos
دوسری مرتبہ چانسلر شپ
ستائیس ستمبر 2009ء کے انتخابات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کر لی۔ اس مرتبہ میرکل نے فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے ساتھ اتحاد بنایا اور دوسری مرتبہ چانسلر کے عہدے پر منتخب کی گئیں۔
تصویر: Getty Images/A. Rentz
جوہری توانائی کا پروگرام اور مخالفت
انگیلا میرکل کوالیفائڈ ماہر طبیعیات ہیں، غالبا اسی لیے وہ حتمی نتائج کے بارے میں زیادہ سوچتی ہیں۔ تاہم انہوں نے فوکو شیما کے جوہری حادثے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ جاپان میں ہوئے اس خطرناک حادثے کے بعد جرمنی میں جوہری توانائی کے حامی فوری طور پر ایٹمی توانائی کے مخالف بن گئے۔ یوں میرکل کو بھی جرمن جوہری ری ایکٹرز کو بند کرنے کا منصوبہ پیش کرنا پڑا۔
تصویر: Getty Images/G. Bergmann
میرکل کی ازدواجی زندگی
ان کو کون پہچان سکتا ہے؟ یہ انگیلا میرکل کے شوہر یوآخم زاؤر ہیں، جو برلن کی ہیمبولٹ یونیورسٹی میں طبیعیات اور تھیوریٹیکل کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔ ان دونوں کی شادی 1998ء میں ہوئی تھی۔ عوامی سطح پر کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یوآخم زاؤر دراصل جرمن چانسلر کے شوہر ہیں۔
تصویر: picture alliance/Infophoto
این ایس اے: میرکل کے فون کی بھی نگرانی
امریکی خفیہ ایجسنی این ایس اے کی طرف سے جرمن سیاستدانون کے ٹیلی فونز کی نگرانی کا اسکینڈل سامنا آیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ امریکا نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے فون بھی ریکارڈ کیے۔ اس اسکینڈل پر جرمنی اور امریکا کے دوستانہ تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ لیکن میرکل نے اس نازک وقت میں بھی انتہائی سمجھداری سے اپنے تحفظات واشنگٹن تک پہنچائے۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
تیسری مرتبہ چانسلر کا عہدہ
انگیلا میرکل کے قدامت پسند اتحاد نے سن دو ہزار تیرہ کے وفاقی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی۔ ان انتخابات میں ان کی سابقہ اتحادی فری ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہوئی اور وہ پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
یونان کا مالیاتی بحران
میرکل دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہیں لیکن یونان میں صورتحال کچھ مختلف ہے۔ سن 2014 میں جب یونان کا مالیاتی بحران شدید تر ہو چکا تھا تو جرمنی اور یونان کی ’پرانی دشمنی‘ کی جھلک بھی دیکھی گئی۔ لیکن میرکل اس وقت بھی اپنی ایمانداری اورصاف گوئی سے پیچھے نہ ہٹیں۔ بچتی کٹوتیوں اور مالیاتی اصلاحات کے مطالبات پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے یونانی عوام جرمنی سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/epa/S. Pantzartzi
جذباتی لمحہ
انگیلا میرکل زیادہ تر اپنے جذبات آشکار نہیں ہونے دیتی ہیں۔ تاہم دیگر جرمنوں کی طرح انگیلا میرکل بھی فٹ بال کی دلدادہ ہیں۔ جب جرمن قومی فٹ بال ٹیم نے برازیل منعقدہ عالمی کپ 2014ء کے فائنل میں کامیابی حاصل کی تو میرکل اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکیں۔ جرمن صدر بھی یہ میچ دیکھنے کی خاطر میرکل کے ساتھ ریو ڈی جینرو گئے تھے۔
تصویر: imago/Action Pictures
مہاجرین کا بحران ایک نیا چیلنج
حالیہ عرصے میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جرمنی پہنچ چکی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ میرکل کہتی ہیں کہ جرمنی اس بحران سے نمٹ سکتا ہے۔ لیکن جرمن عوام اس مخمصے میں ہیں کہ آیا کیا جرمنی واقعی طور پر اس بحران پر قابو پا سکتا ہے۔ ابھی اس کے نتائج آنا باقی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
پیرس حملے اور یورپی سکیورٹی
تیرہ نومر کو پیرس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے فرانس بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔ انگیلا میرکل نے اپنے ہمسایہ ملک کو یقین دلایا ہے کہ برلن حکومت ہر ممکن تعاون کرے گی۔ کوئی شک نہیں کہ پیرس حملوں کے بعد کی صورتحال میرکل کے دس سالہ دور اقتدار میں انہیں پیش آنے والے چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
چوتھی مرتبہ چانسلر
انگیلا میرکل نے بیس نومبر سن دو ہزار سولہ کو اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے مکمل حمایت حاصل رہی اور ان کا قدامت پسند اتحاد چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرا۔ یوں میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
یہ بھی ممکن ہے کہ صوبے میں نئی حکومت اب تک اقتدار میں رہنے والی تین جماعتی مخلوط حکومت کا تسلسل ہی ہو۔ یہ تین جماعتیں کرسچن ڈیموکریٹک یونین، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی ہیں۔
انتہائی دائیں بازو کی کامیابی سے متعلق عوامی خوف
اس الیکشن کے نتائج نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ جرمنی اور خاص کر ملک کے مشرقی صوبوں میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت اے ایف ڈی کے لیے کافی حمایت تو موجود ہے، مگر ساتھ ہی عوامی سطح پر یہ واضح خوف بھی پایا جاتا ہے کہ کہیں یہ جماعت اقتدار میں نہ آ جائے۔
کئی ماہرین کے مطابق یہ پہلو بھی ان عوامل میں شامل ہے، جن کے سبب ممکنہ طور پر اے ایف ڈی کو اپنا ووٹ دینے والے بہت سے ووٹروں نے آخری وقت پر کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی حمایت کا فیصلہ کیا۔
جرمنی میں انتخابی پوسٹرز کیا کہتے ہیں؟
دنیا کے جس ملک میں بھی الیکشن کا وقت قریب آتا ہے، سیاسی رہنماؤں کے عوام سے اُن کی حالت بہتر بنانے کے وعدوں میں بھی تیزی آ جاتی ہے۔ دیکھیے کہ یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی میں انتخابی پوسٹرز کیا وعدے کرتے نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/B.Pedersen
کرسچین ڈیموکریٹک یونین
تین بار چانسلر کے عہدے پر فائز رہنے والی انگیلا میرکل ایک بار پھر انتخابی میدان میں ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت سی ڈی یو بیس ملین یورو خرچ کر کے جرمنی بھر میں اب تک قریب بائیس ہزار پوسٹر لگا چکی ہے۔ اس پوسٹر پر لکھا ہے، ’’ایک ایسے جرمنی کے لیے جہاں ہم اچھی طرح اور شوق سے رہ سکیں۔‘‘
تصویر: picture alliance/dpa/B.Pedersen
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی
جرمنی کی ایک اہم اپوزیشن جماعت ایس پی ڈی نے اپنے انتخابی پوسٹر پر چانسلرشپ کے امیدوار مارٹن شُلس کی تصویر لگائی ہے۔ اس پوسٹر پر لکھا ہے، ’’مستقبل کو نئے تصورات کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک ایسے شخص کی بھی، جو ان پر عمل درآمد کر سکے۔‘‘
فری ڈیموکریٹک پارٹی
ترقی پسندوں کی لبرل جماعت ایف ڈی پی کی الیکشن مہم پر پانچ ملین یورو خرچ کیے گئے ہیں۔ پارٹی سربراہ کرسٹیان لِنڈنر کی تصویر والے اس پوسٹر پر لکھا ہے، ’’بے صبری بھی ایک خوبی ہے۔‘‘
گرین پارٹی
ماحول پسندوں کی جرمن سیاسی جماعت گرین پارٹی کے اس پوسٹر پر لکھا ہے، ’’ماحول سب کچھ نہیں ہے لیکن ماحول کے بغیر کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔‘‘
متبادل برائے جرمنی
جرمنی کی مہاجرین اور اسلام مخالف جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی یا اے ایف ڈی کے اس انتخابی پوسٹر پر ایک حاملہ عورت کی تصویر کے ساتھ یہ لکھا ہوا ہے، ’’نئے جرمن؟ ہم خود پیدا کریں گے۔ جرمنی، ہمت کرو!‘‘
لیفٹ پارٹی یا ’دی لِنکے‘
اس جرمن سیاسی جماعت نے اپنے اس پوسٹر کے لیے مختلف خطِ تحریر استعمال کیے ہیں۔ اس پوسٹر پر مختلف رنگوں میں لکھا ہے، ’’واضح طور پر دائیں بازو کی نفرت انگیزی کے خلاف، دی لِنکے‘‘
6 تصاویر1 | 6
عام انتخابات سے قبل سی ڈی یو کے لیے نئی توانائی اور خود اعتمادی
کئی سیاسی ماہرین سیکسنی انہالٹ کے انتخابی نتائج کو ملکی سطح پر کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے لیے نئی توانائی اور خود اعتمادی کا سبب قرار دے رہے ہیں۔ اگلے عام الیکشن میں سی ڈی یو کی طرف سے چانسلر کے عہدے کے لیے امیدوار آرمین لاشیٹ ہوں گے، جو ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے وزیر اعلیٰ ہیں۔
سی ڈی یو کے لیے یہ بات بھی قابل غور ہو گی کہ سیکسنی انہالٹ میں ہی کل اتوار کے روز جو عوامی سروے کرایا گیا، اس میں صرف 18 فیصد رائے دہندگان نے یہ کہا کہ لاشیٹ ایک کامیاب چانسلر ثابت ہوں گے۔
مستقبل کے ممکنہ کامیاب چانسلر کے طور پر عوامی توقعات سے متعلق اس صوبائی سروے میں سی ڈی یو کے آرمین لاشیٹ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کے نامزد کردہ چانسلرشپ کے امیدواروں کے مقابلے میں پیچھے رہے۔
م م / ع س (بین نائٹ)
اسلام مخالف سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے بارے میں اہم حقائق
مہاجرت اور اسلام مخالف سیاسی پارٹی متبادل برائے جرمنی ملکی سیاست میں ایک نئی قوت قرار دی جا رہی ہے۔ اس پارٹی کے منشور پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Weigel
مہاجرت مخالف
اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
یورپی یونین مخالف
متبادل برائے جرمنی کا قیام سن دو ہزار تیرہ میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اس وقت اس پارٹی کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ یورپی یونین کے ایسے رکن ریاستوں کی مالیاتی مدد نہیں کی جانا چاہیے، جو قرضوں میں دھنسی ہوئی ہیں۔ تب اس پارٹی کے رہنما بیرنڈ لوکے نے اس پارٹی کو ایک نئی طاقت قرار دیا تھا لیکن سن دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں یہ پارٹی جرمن پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
دائیں بازو کی عوامیت پسندی
’جرمنی پہلے‘ کا نعرہ لگانے والی یہ پارٹی نہ صرف دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ہے بلکہ یہ ایسے افراد کو بھی اپنی طرف راغب کرنے کی خاطر کوشاں ہے، جو موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق اے ایف ڈی بالخصوص سابق کمیونسٹ مشرقی جرمنی میں زیادہ مقبول ہے۔ تاہم کچھ جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ پارٹی جرمنی بھر میں پھیل چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
علاقائی سیاست میں کامیابیاں
اے ایف ڈی جرمنی کی سولہ وفاقی ریاستوں میں سے چودہ صوبوں کے پارلیمانی اداروں میں نمائندگی کی حامل ہے۔ مشرقی جرمنی کے تمام صوبوں میں یہ پارٹی ایوانوں میں موجود ہے۔ ناقدین کے خیال میں اب یہ پارٹی گراس روٹ سطح پر لوگوں میں سرایت کرتی جا رہی ہے اور مستقبل میں اس کی مقبولیت میں مزید اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Reuters
نیو نازیوں کے لیے نیا گھر؟
اے ایف ڈی جمہوریت کی حامی ہے لیکن کئی سیاسی ناقدین الزام عائد کرتے ہیں کہ اس پارٹی کے کچھ ممبران نیو نازی ایجنڈے کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ پارٹی ایک ایسے وقت میں عوامی سطح پر مقبول ہوئی ہے، جب انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیاں تاریکی میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں این پی ڈی جیسی نازی خیالات کی حامل پارٹی بھی شامل ہے۔
تصویر: picture alliance/AA/M. Kaman
طاقت کی جنگ
تقریبا پانچ برس قبل وجود میں آنے والی اس پارٹی کے اندر طاقت کی جنگ جاری ہے۔ ابتدائی طور پر اس پارٹی کی قیادت قدرے اعتدال پسندی کی طرف مائل تھی لیکن اب ایسے ارکان کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ ناقدین کے مطابق اب اس پارٹی کے اہم عہدوں پر کٹر نظریات کے حامل افراد فائز ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں اس پارٹی کی موجودہ رہنما ایلس وائڈل بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
پيگيڈا کے ساتھ ناخوشگوار تعلقات
اے ایف ڈی اور مہاجرت مخالف تحریک پیگیڈا کے باہمی تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ پیگیڈا مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں باقاعدہ بطور پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ تاہم اے ایف ڈی نے پیگیڈا کے کئی حامیوں کی حمایت بھی حاصل کی ہے۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ پیگیڈا ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ شہریوں کی ایک تحریک ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert
میڈیا سے بے نیاز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بریگزٹ رہنما نائیجل فاراژ کی طرح جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کے رہنما بھی مرکزی میڈیا سے متنفر ہیں۔ اے ایف ڈی مرکزی میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے کے لیے کوشش بھی نہیں کرتی بلکہ زیادہ تر میڈیا سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات دینا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔