سیکس اسکینڈل، اس سال ادب کا نوبل انعام نہیں دیا جائے گا
4 مئی 2018
سویڈن کی نوبل پرائز اکیڈمی نے اس برس ادب کا نوبل انعام دینے کا عمل موخر کر دیا ہے۔ سیکس اسکینڈل کے باعث نوبل اکیڈمی کے متعدد ارکان کے استعفوں کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
اشتہار
سویڈش اکیڈمی نے چار مئی بروز جمعہ تصدیق کر دی ہے کہ اس برس ادب کا نوبل انعام نہیں دیا جائے گا بلکہ سن دو ہزار اٹھارہ میں اس معتبر انعام کا حقدار قرار دی جانے والی شخصیت کو یہ ایوارڈ سن دو ہزار انیس میں دیا جائے گا۔
یہ پیشرفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب سویڈش اکیڈمی میں جنسی زیادتی کے اسکینڈل کی وجہ سے اس اکیڈمی کے متعدد ارکان کو اپنے عہدوں کو خیر باد کہنا پڑا ہے۔ اس وجہ سے اس اکیڈمی کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
نوبل اکیڈمی کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق، ’’یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کیونکہ موجودہ صورتحال میں لوگوں میں اکیڈمی کے اعتماد میں کمی ہو گئی ہے۔‘‘
اس گروپ کے مستقل سیکرٹری آندریاس السون نے کہا، ’’اس انعام کے اعلان سے قبل ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ عوام کا اعتماد بحال کیا جائے اور اس کے لیے ہمیں کچھ وقت درکار ہو گا۔‘‘ سن 1943 کے بعد پہلی مرتبہ دو ہزار اٹھارہ میں اس معتبر انعام کا اعلان نہیں کیا جائے گا۔
نوبل پرائز فاؤنڈیشن نے بھی اس برس کے لٹریچر پرائز کو مؤخر کرنے کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔ فاؤنڈیشن بورڈ کے صدر کارل ہنڈرک ہیلڈن کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اس بحران کی وجہ سے سویڈش اکیڈمی کی ساکھ کو بہت زیادہ نقصان ہوا ہے‘۔
گزشتہ برس نومبر میں سویڈش نیوز پیپرز نے ایسی اٹھارہ خواتین کی کہانیاں شائع کی تھیں، جنہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ اکیڈمی ممبر کاتارینا فروسٹینشن کے فرانسیسی شوہر ژاں کلاؤدے آرنو نے انہیں جنسی زیادتی، جنسی حملوں یا ہراسیت کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
آرنو سویڈش ثقافتی حلقوں میں انتہائی زیادہ اثر ورسوخ رکھتے ہیں۔ آرنو پر یہ الزام بھی عائد کیا جا چکا ہے کہ انہوں نے ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والی شخصیات کے نام پہلے ہی لیک کر دیے تھے۔
اس بحران کے نتیجے میں اکیڈمی کے اٹھارہ ممبران نے یا تو استعفے دے دیے یا اکیڈمی سے دوری اختیار کر لی ہے۔ ان میں اکیڈمی کی پہلی خاتون سربراہ سارہ ڈینس بھی شامل ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اکیڈمی ممبر کاتارینا فروسٹینشن بھی استعفیٰ دینے پر رضا مند ہو گئی ہیں۔
کرسٹینا برویک / ع ب / ا ب ا
نوبل انعام برائے ادب حاصل کرنے والے ادیب
ادیبوں کی پذیرائی کے لیے نوبل انعام برائے ادب ایک انتہائی اعلیٰ اعزاز تصور کیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ گزشتہ بارہ برسوں کے دوران یہ اعزاز کن کن ادیبوں کے حصے میں آیا ہے۔
تصویر: AP
سن 2015 : سویٹلانا الیکسیوِچ
بیلاروس کی ادیبہ اور صحافی سویٹلانا الیکسیوِچ کو رواں برس کا نوبل انعام برائے ادب دیا گیا ہے۔ ان کی تخلیقات کو ’دور حاضر کے دکھوں اور حوصلے کی یادگار‘ قرار دیا جاتا ہے۔ وہ ایسی 14 ویں خاتون ہیں، جنہیں 1901ء کے بعد اس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2014 : پیٹرک مودیانو
فرانسیسی ناول نگار پیٹرک مودیانو کو گزشتہ برس نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا تھا۔ ان کی تصانیف میں دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریاں موجودہ کرداروں کے ساتھ سفر کرتی نظر آتی ہیں۔ ان تمام کہانیوں کا تعلق زیادہ تر پیرس یا اس کے گرد و نواح سے ہی ہے۔ فرانس پر نازیوں کے قبضے کی تلخ اور دہلا دینے والی یادیں مودیانو کی کہانیوں میں جا بجا بکھری پڑی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Kovarik
سن 2013 : ایلس منرو
کینیڈا سے تعلق رکھنے والی اس خاتون ادیبہ کو عصر حاضر میں افسانہ نگاری کا استاد قرار دیا جاتا ہے۔ انہیں سویڈئش رائل اکیڈمی نے 2013ء میں اس معتبر انعام سے نوازا تھا۔ وہ ’میَن بکر انٹرنیشنل پرائز‘ اور تین مرتبہ ’کینڈین گورنر جنرل ایوارڈ‘ کے حق دار بھی قرار دی جا چکی ہیں۔
تصویر: PETER MUHLY/AFP/Getty Images
سن 2012 : مو یان
گوان موئی کا قلمی نام مو یان ہے، وہ زیادہ تر اسی نام سے جانے جاتے ہیں۔ سوئڈش رائل اکیڈمی کے مطابق اس لکھاری کی تحریروں میں ’ لوک کہانیوں میں التباسی حقیقت نگاری‘ کا رنگ انتہائی پکا ہے۔ ان کی تخیلقات کئی دیگر زبانوں میں بھی ترجمہ ہو چکی ہیں۔ انہیں سن 2012 میں نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2011 : ٹوماس ٹرانس ٹرومر
سال 2011 کے نوبل انعام برائے ادب کے لیے سویڈش شاعر، مترجم اور ماہر نفسیات کو چنا گیا تھا۔ رائل سوئڈش اکیڈمی کے مطابق ٹرانس ٹرومر نے اپنی شاعری میں استعمال ہونے والے الفاظ کو تصاویری رنگ میں پیش کیا، جس کے نتیجے میں قاری کے ذہنوں میں ایک تازگی کا احساس پیدا ہوا۔ ساٹھ کی دہائی میں وہ بطور سائیکالوجسٹ کام کیا کرتے تھے۔ ان کی شاعری ساٹھ زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہے۔
تصویر: Fredrik Sandberg/AFP/Getty Images
سن 2010 : ماریو وارگاس لوہسا
پیرو کے ناول نگار للوسا کو 2010ء میں اس اہم انعام سے نوازا گیا۔ ان کی کہانیوں میں طاقت کے ایوانوں کے خلاف انفرادی مزاحمت، انقلاب اور شکست جیسے موضوعات عام ہیں۔
تصویر: AP
سن 2009 : ہیرٹا ملر
جرمن۔ رومانئین ادیبہ ہیرٹا ملر نے اپنی شاعری اور نثر میں رومانیہ میں استحصال کے شکار افراد کو موضوع بنایا۔ وہ رومانیہ کی چاؤشیسکو حکومت کی سخت ناقد تھیں۔ وہ 1987ء میں رومانیہ کو خیر باد کہہ کر مغربی برلن منتقل ہو گئی تھیں۔ انہیں جرمن زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔
تصویر: Getty Images
سن 2008 : جے ۔ایم۔ جی لی کلیزیو
ژاں ماری لی کلیزیو کو سن 2008 میں نوبل انعام برائے ادب دیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں ایڈونچر اور حسیائی لطف جیسے موضوعات کی آمیزش سے اپنے اسلوب کو ایک نئی جہت فراہم کی۔ وہ انیس سو چالیس میں فرانس کے شہر نیس میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد فرانسیسی جبکہ والدہ موریطانیہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ انہوں نے موریطانیہ کی شہریت بھی اختیار کر رکھی تھی۔
تصویر: AP
سن 2007 : ڈورس لیسنگ
برطانوی لکھاری ڈورس مئے لیسنگ نے ناول، افسانہ نگاری اور ڈرامے جیسی اصناف میں طبع آزمائی کی۔ 93 برس کی عمر میں انہیں نوبل انعام برائے ادب سے نوازا گیا۔ انہوں نے جوہری ہتھیاروں اور جنوبی افریقہ میں نسلی عصیبت کے خلاف ایک مہم چلا رکھی تھی۔
تصویر: AP
سن 2006 : اورھان پاموک
فیرِٹ اورھان پاموک نے بین الاثقافتی تصادم کی کھوج کے لیے نئی علامتیں دریافت کی۔ وہ ادب کا نوبل انعام حاصل کرنے والے پہلے ترک مصنف تھے۔ ان کی 11 ملین سے زائد کتابیں فروخت ہوئیں اور وہ ترکی کے ’بیسٹ سیلر‘ لکھاری ہیں۔ استنبول میں پیدا ہونے والے پاموک اب نیویارک کی کولمبیا یونیوسٹی میں پڑھاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2005 : ہیرالڈ پِنٹر
ہیرالڈ پِنٹر جگر کے سرطان میں مبتلا تھے اور انہیں ان کی وفات سے تین برس قبل ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔ وہ سن 2008ء میں کرسمس کی شام کو انتقال کر گئے۔ اس برطانوی فنکار نے کئی ریڈیو اور فلم پروڈکشنز کے لیے کہانیاں لکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی ہدایات بھی دیں اور اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ انہیں مجموعی طور پر 50 ایوارڈز ملے۔
تصویر: Getty Images
سن 2004 : ایلفریڈے ژیلینک
ژیلینک کو ان کے ناولوں میں گنگناتی آوازوں اور ان کی جوابی آوازوں کی اچھوتی تخلیقات پر دیا گیا۔ اس کے علاوہ ان کے معاشرتی رویوں کی عکاسی کرنے والے ڈراموں نے بھی انہیں اس اعزاز کا حق دار بنایا۔ ان کی تصنیفات میں بنیادی حیثیت عورت کی جنس کے موضوع کو حاصل رہی ہے۔ ان کا ناول ’پیانو ٹیچر‘ سن 2001ء میں اسی نام سے بننے والی ایک فلم کی بنیاد بھی بنا۔