’سیکس بِکتی ہے‘ خواتین کا اشتہارات میں بطور شے استعمال
3 فروری 2019
’جنس بکتی ہے‘ اشتہارت کی صنعت میں یہ کہاوت بہت پرانی ہے۔ فوٹوگرافرز نے مصنوعات کی فروخت کے لیے خواتین کے جسمانی خطوط کو ہیجانی انداز میں پیش کیا ہے۔ اس موضوع پر برلن میں ’وومن آن ویو‘ کے عنوان سے ایک نمائش جاری ہے۔
اشتہار
’وومن آن ویو‘ میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران کے کچھ معروف فیشن اور کمرشل فوٹوگرافرز کی تصاویر نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ ان تصاویر کی نمائش کا ایک مقصد مغربی دنیا کی اشتہارات کی صنعت میں خواتین کے جسم کی جنسی خصوصیات اور اس کے معاشرے پر اثرات کے موضوع پر بحث و مباحثے کا آغاز کرنا تھا۔
1970ء کی دہائی میں خواتین کی آزادی اور حقوق کے لیے چلائی جانے والی تحریک اور می ٹو موومنٹ کے آج کل کے دور میں بھی اشتہارات میں فرسودہ افسوسناک صنفی تقسیم موجود ہے۔ 1940ء کی دہائی کے اشتہارات سے لے کر 1990ء کی دہائی کے اشتہارات میں ایسی خد وخال کی خواتین دکھائی جاتی تھیں جن کا حقیقی دنیا سے تعلق دکھائی نہیں دیتا اور جنہوں نے انتہائی تنگ لباس پہنے ہوئے ہوتے تھے۔ یہ تصاویر آج بھی ٹیلی وژن، کمپیوٹر اسکرینز، بل بورڈز اور کچھ خاص جریدوں میں دکھائی دیتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق’ سیکس سیلز‘ یعنی جنس بِکتی ہے کا نظریہ ہو سکتا ہے غلط بھی ہو لیکن ذرائع ابلاغ کو حسن کے ناقابل حصول اور ناقابل یقین تصورات کی تشہیر کی وجہ سےایک طویل عرصے سے تنقید کو نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔
سماجی امور کی ماہر ایستھر لوبرادو نے جنسی طور پر ہیجانی اشتہارات کا اثر جاننے کے لیے ایک اخبار میں ایک اشتہار شائع کیا۔ لوبرادو نے واضح کیا کہ اس نمائش کی انتظامیہ کے تعاون سے جاری کرنے والے اس اشتہار کی اشاعت کا اصل مقصد صارفین کو قائل کرنا اور اس کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچی کے جنسی تشہیر دماغ کے ان حصوں کو فعال کرتی ہے، جو جذبات کو کنٹرول کرتے ہیں۔
اس نمائش میں فیش کی دنیا کی کچھ ڈرامائی تصاویر میں الکوحل سے لے کر پرفیوم تک ایسی بے پناہ مصنوعات کے اشتہارت شامل ہیں، جن میں خواتین کو شہوت اور خواہش کی ایک شے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ اشتہارات میں اشیاء کو فروخت کرنے کے بجائے ایک مثالی طرز زندگی کو فروغ دینے پر زیادہ توجہ دی جانے لگی ہے۔
برلن میں ’وومن آن ویو‘ نامی یہ نمائش چھتیس مختلف گیلریوں میں لگی ہے۔ دو فروری سے شروع ہونے والی یہ نمائش ستائیس اپریل تک جاری رہے گی۔
’بروڈول‘ سیکس ڈولز پر مشتمل جرمن قحبہ خانہ پر ایک نظر
جرمن شہر ڈورٹمنڈ میں ایک ایسا قحبہ خانہ بھی ہے جہاں مرد، خواتین اور جوڑوں کو ان کی جنسی تسکین کے لیے سلیکون سے بنائی گئی گڑیاں مہیا کی جاتی ہیں۔ تفصیلات ڈی ڈبلیو کے چیز ونٹر کی ’بروڈول‘ سے متعلق اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: DW/C. Winter
حقیقی خواتین کیوں نہیں؟
یہ کاروبار تیس سالہ جرمن خاتون ایویلین شوارز نے شروع کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ قحبہ خانے میں کام کرنے کے لیے انہیں جرمن خواتین نہیں مل رہی تھیں اور غیر ملکی خواتین جرمن زبان پر عبور نہیں رکھتیں۔ شوار کے مطابق ان کے جرمن گاہکوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ پیشہ ور خواتین ان کی بات درست طور پر سمجھ پائیں۔
تصویر: DW/C. Winter
بے زبان گڑیا
ایویلین شوارز نے ٹی وی پر جاپانی سیکس ڈولز سے متعلق ایک رپورٹ دیکھی تو انہیں لگا کہ غیر ملکی خواتین کے مقابلے میں سیکس ڈولز پر مشتمل قحبہ خانہ زیادہ بہتر کاروبار کر پائے گا۔ شوارز کے مطابق، ’’یہ دکھنے میں خوبصورت ہیں، بیمار بھی نہیں ہوتی اور بغیر کسی شکایت کے ہر طرح کی خدمات پیش کر سکتی ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
جذبات سے عاری اور تابعدار
’بروڈول‘ کی مالکہ کا کہنا ہے کہ کئی گاہگ سماجی مسائل کا شکار ہوتے ہیں اور وہ لوگوں سے بات چیت کرنے سے کتراتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے جذبات سے عاری سیکس ڈولز باعث رغبت ہوتی ہیں۔
تصویر: DW/C. Winter
مردوں کی انا کی تسکین
جسم فروش خواتین کے پاس آنے والے گاہکوں کو مختلف خدمات کے حصول کے لیے پیشگی گفتگو کرنا پڑتی ہے جب کہ سلیکون کی بنی ہوئی یہ گڑیاں بغیر کسی بحث کے مردوں کی خواہشات پوری کرتی ہیں۔ ایویلین شوارز کے مطابق، ’’ان گڑیوں کے جذبات کا خیال رکھے بغیر مرد گاہگ جتنا چاہیں انا پرست ہو سکتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
خطرناک جنسی رویے
اس قحبہ خانے کا رخ کرنے والوں میں مرد و زن کے علاوہ ایسے جوڑے بھی ہوتے ہیں جو شوارز کے بقول خطرناک جنسی رویوں کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسے گاہگوں کے لیے ’بی ڈی ایس ایم‘ کمرہ بھی موجود ہے۔ شوارز کے مطابق، ’’ کسی خاتون کے ساتھ پر تشدد ہونے کی بجائے گڑیا کے ساتھ ایسا کرنا بہتر ہے۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
گڑیوں کے ساتھ بھی جذباتی لگاؤ
شوارز کے مطابق اس قحبہ خانے میں آنے والوں گاہکوں میں سے ستر فیصد دوبارہ لوٹ کر ضرور آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو ہر ہفتے یہاں آتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ ان گڑیوں سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔
تصویر: DW/C. Winter
سماجی قبولیت بھی ہے؟
’بروڈول‘ ایسا پہلا قحبہ خانہ نہیں ہے جہاں سلیکون کی گڑیاں رکھی گئی ہیں۔ جاپان میں ایسے درجنوں کاروبار ہیں اور حالیہ کچھ عرصے کے دوران ہسپانوی شہر بارسلونا اور جرمن دارالحکومت برلن میں بھی ایسے قحبہ خانے کھولے جا چکے ہیں۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یورپ میں اس کاروبار کے مستقبل سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
تصویر: DW/C. Winter
یہ کاروبار کتنا اخلاقی ہے؟
اس قحبہ خانے کی مالکہ کے مطابق انہیں اس کاروبار کے اخلاقی ہونے سے متعلق کوئی تحفظات نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ تو بس کھلونوں کی مانند ہیں۔‘‘
تصویر: DW/C. Winter
سیکس ڈولز کے چہروں کے بچگانہ خدوخال؟
کئی ناقدین نے سلیکون کی بنی ان گڑیوں کے چہروں کے بچگانہ خدوخال کے باعث شدید تنقید بھی کی ہے۔
تصویر: DW/C. Winter
’صفائی کاروباری راز‘
قحبہ خانے کا آغاز چین سے درآمد کی گئی چار گڑیوں سے کیا گیا تاہم طلب میں اضافے کے سبب اب یہاں سلیکون کی بارہ سیکس ڈولز ہیں جن میں سے ایک مرد گڑیا بھی ہے۔ ’بروڈول‘ کی مالکہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صفائی کیسے کی جاتی ہے، یہ ان کا کاروباری راز ہے لیکن ان یہ بھی کہنا تھا کہ ہر گاہک کے بعد گڑیوں کی مکمل صفائی کر کے انہیں ہر طرح کے جراثیموں سے پاک کیا جاتا ہے۔