1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سی پیک میں سعودی سرمایہ کاری: حکومتی بیانات کی مختلف تشریحات

عبدالستار، اسلام آباد
3 اکتوبر 2018

پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے سی پیک منصوبے کے حوالے سے متضاد بیانات نے کئی ماہرین اور سیاست دانوں کو حیران کر دیا ہے۔ تجزیہ نگار اور سیاست دان ان بیانات کی تشریح کئی مختلف طریقوں سے کر رہے ہیں۔

تصویر: picture-alliance/MAXPPP/Kyodo

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ معاملہ موجودہ وفاقی حکومت کی طرف سے ایک اور ’یو ٹرن‘ ہے تو کچھ دیگر تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ سی پیک کو ختم کیا جارہا ہے۔ چند ماہرین کے بقول ان بیانات کے تانے بانے چین کی ناراضگی سے جڑےہوئے ہیں تو کچھ کے خیال میں بنیادی طور پر سعودی عرب امریکی دباؤ کے تحت سی پیک میں سرمایہ کاری سے پیچھے ہٹا ہے۔

پاکستانی حکومت نے بہت جوش و خروش سے کچھ دن پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ قدامت پرست عرب بادشاہت سعودی عرب پاکستان میں دس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ پھر کہا گیا کہ سعودی عرب کو سی پیک میں شامل کیا جا رہا ہے اور ریاض حکومت کو ریکوڈک اور کاپر مائننگ کے پروجیکٹس کے علاوہ گوادر میں ایک آئل ٹرمینل بنانے کی دعوت بھی دی جا رہی ہے۔

ان اعلانات پر حزب اختلاف کی جماعتوں میں شدید غصے کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے سینیٹ میں اس وجہ سے احتجاج بھی کیا۔ اس کے بعد حکومت کی طرف سے ایک اور بیان سامنے آیا۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی خسرو بختیار اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے نئی وضاحت یہ کی کہ سعودی عرب پاکستان میں ایک دو طرفہ معاہدے کے تحت سرمایہ کاری کرے گا اور سی پیک کا حصہ نہیں بنے گا۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی انیس ستمبر کو جدہ میں سعودی عرب کے شاہ سلمان سے ملاقات کی ایک تصدویرتصویر: picture-alliance/AP Photo/Saudi Press Agency

لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر خالد جاوید جان کے خیال میں عمران خان حکومت نے چینی دباؤ کی وجہ سے ’یو ٹرن‘ لیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’پہلے حکومت نے کہا کہ اس نے چین کو اعتماد میں لے کر سعودی عرب کو سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔ لیکن ایسا تاثر بھی ہے کہ چین سعودی عرب کی شمولیت پر ناراض تھا اور چونکہ چینی باشندے سرعام اپنی ناخوشی کا اظہار نہیں کرتے، اس لیے ممکن ہے کہ بیجنگ نے خاموش سفارت کاری کے ذریعے اسلام آباد حکومت کو اپنی ناراضگی سے آگاہ کیا ہو، جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو ’یو ٹرن‘ لینا پڑ گیا ہو۔‘‘

چین اور امریکا کے مابین اپنی بھی ایک دوطرفہ تجارتی جنگ جاری ہےتصویر: imago/C. Ohde

لیکن دیگر تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ پیش رفت امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے اور ’یو ٹرن‘ پاکستانی حکومت نے نہیں لیا بلکہ سعودی عرب خود پیچھے ہٹا ہے۔ سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی ملک سمجھا جاتا ہے، جس کے ساتھ صدر ٹرمپ نے اپنے اقتدار میں آنے کے بعد سے تین سو بلین ڈالر سے زائد کے کاروباری معاہدے کیے ہیں۔

دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کے خیال میں سی پیک امریکی مفادات کے خلاف ہے اور سعودی عرب امریکا کی مرضی کے بغیر ہی اس کا حصہ بننے کی کوشش کر رہا تھا مگر واشنگٹن کی طرف سے سخت رد عمل نے اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔

امجد شعیب نے کہا، ’’امریکا چین کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ چین کو معاشی طور پر بہت طاقت ور بنا دے گا۔ سی پیک اس پالیسی کا ایک اہم جز ہے۔ تو امریکا کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ سعودی عرب، جو ایک امریکی اتحادی ہے، اس منصوبے کا حصہ بنے۔ آج ٹرمپ کا سعودیہ کے حوالے سے بیان بھی اسی غصے کا عکاس ہے، جو واشنگٹن کو سعودی عرب کے سی پیک کا حصہ بننے کے ارادے پر تھا۔‘‘

قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر ظفر جسپال بھی جنرل امجد کے اس تجزیے سے اتفاق کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر ٹرمپ کے بیان کی تشریحات کو دیکھا جائے، تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ سعودی عرب کے سی پیک کا حصہ بننے کے ارادے پر ناخوش تھے، جس کی وجہ سے ریاض حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس لیے بھی کہ سعودی رہنماؤں کو خطرہ ہے کہ اگر چین اور امریکا کی مخاصمت شدت اختیار کرتی ہے، تو واشنگٹن سعودی عرب سے کہہ سکتا ہے کہ وہ امریکا اور چین میں سے اپنے لیے کسی ایک کا انتخاب کر لے۔ ظاہر ہے سعودی عرب امریکا کی دوستی نہیں کھونا چاہے گا۔‘‘

اسی دوران پاکستان میں ایسی باتیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ ملائیشیا، سری لنکا، مالدیپ اور دیگر ممالک کی طرح اب پاکستان بھی اپنے ہاں چینی سرمایہ کاری کو خیر باد کہنا یا پھر اس میں کافی حد تک کمی چاہتا ہے۔ معروف سیاست دان عثمان کاکڑ کے خیال میں پی ٹی آئی کی حکومت سی پیک کو ختم کرنے کی طرف جا رہی ہے، ’’میرے خیال میں پہلے یہ سعودی سرمایہ کاری اور دوسرے ممالک کی حصے داری کا شوشہ چھوڑ کر سی پیک کے کاموں کی رفتار کم کریں گے اور بعد میں انہیں ختم کر دیں گے۔ بلوچستان میں انہوں نے سی پیک کے کئی منصوبے ختم کرنے کے اشارے دیے ہیں۔ مجھے تو سی پیک رول بیک ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں