سی پیک میں سعودی سرمایہ کاری: حکومتی بیانات کی مختلف تشریحات
عبدالستار، اسلام آباد
3 اکتوبر 2018
پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے سی پیک منصوبے کے حوالے سے متضاد بیانات نے کئی ماہرین اور سیاست دانوں کو حیران کر دیا ہے۔ تجزیہ نگار اور سیاست دان ان بیانات کی تشریح کئی مختلف طریقوں سے کر رہے ہیں۔
اشتہار
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ معاملہ موجودہ وفاقی حکومت کی طرف سے ایک اور ’یو ٹرن‘ ہے تو کچھ دیگر تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ سی پیک کو ختم کیا جارہا ہے۔ چند ماہرین کے بقول ان بیانات کے تانے بانے چین کی ناراضگی سے جڑےہوئے ہیں تو کچھ کے خیال میں بنیادی طور پر سعودی عرب امریکی دباؤ کے تحت سی پیک میں سرمایہ کاری سے پیچھے ہٹا ہے۔
پاکستانی حکومت نے بہت جوش و خروش سے کچھ دن پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ قدامت پرست عرب بادشاہت سعودی عرب پاکستان میں دس بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ پھر کہا گیا کہ سعودی عرب کو سی پیک میں شامل کیا جا رہا ہے اور ریاض حکومت کو ریکوڈک اور کاپر مائننگ کے پروجیکٹس کے علاوہ گوادر میں ایک آئل ٹرمینل بنانے کی دعوت بھی دی جا رہی ہے۔
ان اعلانات پر حزب اختلاف کی جماعتوں میں شدید غصے کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے سینیٹ میں اس وجہ سے احتجاج بھی کیا۔ اس کے بعد حکومت کی طرف سے ایک اور بیان سامنے آیا۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی خسرو بختیار اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے نئی وضاحت یہ کی کہ سعودی عرب پاکستان میں ایک دو طرفہ معاہدے کے تحت سرمایہ کاری کرے گا اور سی پیک کا حصہ نہیں بنے گا۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر خالد جاوید جان کے خیال میں عمران خان حکومت نے چینی دباؤ کی وجہ سے ’یو ٹرن‘ لیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’پہلے حکومت نے کہا کہ اس نے چین کو اعتماد میں لے کر سعودی عرب کو سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔ لیکن ایسا تاثر بھی ہے کہ چین سعودی عرب کی شمولیت پر ناراض تھا اور چونکہ چینی باشندے سرعام اپنی ناخوشی کا اظہار نہیں کرتے، اس لیے ممکن ہے کہ بیجنگ نے خاموش سفارت کاری کے ذریعے اسلام آباد حکومت کو اپنی ناراضگی سے آگاہ کیا ہو، جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو ’یو ٹرن‘ لینا پڑ گیا ہو۔‘‘
لیکن دیگر تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ پیش رفت امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے اور ’یو ٹرن‘ پاکستانی حکومت نے نہیں لیا بلکہ سعودی عرب خود پیچھے ہٹا ہے۔ سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی ملک سمجھا جاتا ہے، جس کے ساتھ صدر ٹرمپ نے اپنے اقتدار میں آنے کے بعد سے تین سو بلین ڈالر سے زائد کے کاروباری معاہدے کیے ہیں۔
دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کے خیال میں سی پیک امریکی مفادات کے خلاف ہے اور سعودی عرب امریکا کی مرضی کے بغیر ہی اس کا حصہ بننے کی کوشش کر رہا تھا مگر واشنگٹن کی طرف سے سخت رد عمل نے اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔
امجد شعیب نے کہا، ’’امریکا چین کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ چین کو معاشی طور پر بہت طاقت ور بنا دے گا۔ سی پیک اس پالیسی کا ایک اہم جز ہے۔ تو امریکا کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ سعودی عرب، جو ایک امریکی اتحادی ہے، اس منصوبے کا حصہ بنے۔ آج ٹرمپ کا سعودیہ کے حوالے سے بیان بھی اسی غصے کا عکاس ہے، جو واشنگٹن کو سعودی عرب کے سی پیک کا حصہ بننے کے ارادے پر تھا۔‘‘
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر ظفر جسپال بھی جنرل امجد کے اس تجزیے سے اتفاق کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اگر ٹرمپ کے بیان کی تشریحات کو دیکھا جائے، تو بظاہر یہی لگتا ہے کہ وہ سعودی عرب کے سی پیک کا حصہ بننے کے ارادے پر ناخوش تھے، جس کی وجہ سے ریاض حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس لیے بھی کہ سعودی رہنماؤں کو خطرہ ہے کہ اگر چین اور امریکا کی مخاصمت شدت اختیار کرتی ہے، تو واشنگٹن سعودی عرب سے کہہ سکتا ہے کہ وہ امریکا اور چین میں سے اپنے لیے کسی ایک کا انتخاب کر لے۔ ظاہر ہے سعودی عرب امریکا کی دوستی نہیں کھونا چاہے گا۔‘‘
اسی دوران پاکستان میں ایسی باتیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ ملائیشیا، سری لنکا، مالدیپ اور دیگر ممالک کی طرح اب پاکستان بھی اپنے ہاں چینی سرمایہ کاری کو خیر باد کہنا یا پھر اس میں کافی حد تک کمی چاہتا ہے۔ معروف سیاست دان عثمان کاکڑ کے خیال میں پی ٹی آئی کی حکومت سی پیک کو ختم کرنے کی طرف جا رہی ہے، ’’میرے خیال میں پہلے یہ سعودی سرمایہ کاری اور دوسرے ممالک کی حصے داری کا شوشہ چھوڑ کر سی پیک کے کاموں کی رفتار کم کریں گے اور بعد میں انہیں ختم کر دیں گے۔ بلوچستان میں انہوں نے سی پیک کے کئی منصوبے ختم کرنے کے اشارے دیے ہیں۔ مجھے تو سی پیک رول بیک ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔‘‘
پاکستان کو ترقیاتی امداد دینے والے دس اہم ممالک
2010ء سے 2015ء کے دوران پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والے دس اہم ترین ممالک کی جانب سے مجموعی طور پر 10,786 ملین امریکی ڈالرز کی امداد فراہم کی گئی۔ اہم ممالک اور ان کی فراہم کردہ امداد کی تفصیل یہاں پیش ہے۔
تصویر: O. Andersen/AFP/Getty Images
۱۔ امریکا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی امداد امریکا نے دی۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ان پانچ برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C.Kaster
۲۔ برطانیہ
برطانیہ پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے دوسرا بڑا ملک ہے۔ برطانیہ نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 2686 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Dunham
۳۔ جاپان
تیسرے نمبر پر جاپان ہے جس نے سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 1303 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Farooq Ahsan
۴۔ یورپی یونین
یورپی یونین کے اداروں نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مذکورہ عرصے کے دوران اس جنوبی ایشیائی ملک کو 867 ملین ڈالر امداد دی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Katsarova
۵۔ جرمنی
جرمنی، پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا پانچواں اہم ترین ملک رہا اور OECD کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ پانچ برسوں کے دوران جرمنی نے پاکستان کو قریب 544 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Imago/Müller-Stauffenberg
۶۔ متحدہ عرب امارات
اسی دورانیے میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 473 ملین ڈالر کی ترقیاتی امداد فراہم کی۔ یو اے ای پاکستان کو ترقیاتی کاموں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۷۔ آسٹریلیا
ساتویں نمبر پر آسٹریلیا رہا جس نے ان پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 353 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Bäsemann
۸۔ کینیڈا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران کینیڈا نے پاکستان کو 262 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں دیے۔
تصویر: Getty Images/V. Ridley
۹۔ ترکی
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے امداد فراہم کرنے والے اہم ممالک کی فہرست میں ترکی نویں نمبر پر ہے جس نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 236 ملین ڈالر خرچ کیے۔
تصویر: Tanvir Shahzad
۱۰۔ ناروے
ناروے پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا دسواں اہم ملک رہا جس نے مذکورہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 126 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/M. Jung
چین
چین ترقیاتی امداد فراہم کرنے والی تنظیم کا رکن نہیں ہے اور عام طور پر چینی امداد آسان شرائط پر فراہم کردہ قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ چین ’ایڈ ڈیٹا‘ کے مطابق ایسے قرضے بھی کسی حد تک ترقیاتی امداد میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ صرف سن 2014 میں چین نے پاکستان کو مختلف منصوبوں کے لیے 4600 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
سعودی عرب
چین کی طرح سعودی عرب بھی ترقیاتی منصوبوں میں معاونت کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے۔ سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے سن 1975 تا 2014 کے عرصے میں پاکستان کو 2384 ملین سعودی ریال (قریب 620 ملین ڈالر) دیے۔