1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سی پیک سے متعلق قبائل کے تحفظات، بوستان میں کام رکوا دیا گیا

18 جنوری 2022

پاکستانی صوبے بلوچستان میں حکومت سی پیک سے متعلق قبائل کے تحفظات دور نہ کر سکی۔ مشتعل پشتون قبائل نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے اہم حصے سے منسلک بوستان اور ملحقہ علاقوں میں مغربی روٹ پر کام احتجاجاﹰ رکوا دیا۔

بوستان میں ایک اسپیشل اکنامک زون بھی بنایا جا رہا ہےتصویر: A. G. Kakar/DW

قبائلی عمائدین کا کہنا ہے کہ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) نامی منصوبے کی آڑ میں ترقی کے بجائے حکومت ان کی زمینوں کو اونے پونے داموں خرید کر  انہیں مزید معاشی بدحالی سے دوچار کر رہی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سی پیک کا مغربی روٹ 293 کلومیٹر سے زائد طویل علاقے پر محیط ہے۔ اس منصوبے کے حوالے سے بلوچ اور پشتون قوم پسند سیاسی جماعتوں نے بھی کئی تحفظات ظاہر کیے ہیں۔

طالبان کو سی پیک میں شرکت کی دعوت

اس مغربی روٹ میں مجموعی طور پر 441 کلومیٹر پر پھیلے ہوئے بلوچ اکثریتی علاقے خضدار سے چمن تک کی وہ سڑک بھی شامل ہے، جسے اب دو لین سے چار لین ہائے وے میں بدلا جا رہا ہے۔

اربوں مالیت کی زمینیں 'ہتھیانے کی کوشش‘

بوستان میں مغربی روٹ کا ایک بڑا حصہ جس زمین سے گزر رہا ہے، اس کے مالک فرمان خان کہتے ہیں کہ ترقیاتی عمل کے حوالے سے پشتون قبائل کے تحفظات دور نہ کیے گئے، تو تمام تر صورتحال کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہو گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''بوستان اور ملحقہ علاقے سی پیک منصوبے کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔ یہاں اسپیشل اکنامک زون بھی بنایا جا رہا ہے۔ مغربی روٹ پر قبائل کی اربوں روپے مالیت کی زمینیں  ہتھیانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جسے ہم کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ہم ترقی کے خلاف نہیں ہیں لیکن ترقی کے نام پر علاقائی مفادات کو قربان نہیں کر سکتے۔‘‘

پاکستان: چینی شہریوں کی گاڑی پر ایک اور خود کش حملہ

تصویر: A. G. Kakar/DW

سی پیک کمیٹی کا مشترکہ اجلاس ملتوی: کیا چین کے ساتھ تعلقات بگڑیں گے؟

فرمان خان کا کہنا تھا کہ مغربی روٹ کی وجہ سے پشتون قبائل کے اربوں روپے مالیت کی زمینوں والے باغات بھی تباہ ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ انہوں نے کہا، ''بوستان اور دیگر ملحقہ علاقوں میں سی پیک روٹ کے حدود میں آنے والی زمینیں قبائل کی ملکیت ہیں۔ ان زمینوں کو حکومت چین کو فائدہ پہنچانے کے لیے من پسند نرخوں پر خریدنے کی کوشش کر رہی ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ ہماری زمینوں کو حکومت جس قیمت پر خریدنے کی کوشش کر رہی ہے، اصل قیمت اس سے 800 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ہم سب نے اس فیصلے کو مسترد کیا ہے۔ قبائل کو دیوار سے لگا دینے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ ہم اپنے قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے۔‘‘

حکام پر 'مجرمانہ غفلت‘ کا الزام

سی پیک کمیٹی کے ممبر اور قبائلی سربراہ ملک سرور خان پانیزئی کہتے ہیں کہ سی پیک منصوبہ اگر واقعی معاشی استحکام کا منصوبہ ہے، توحکومت پشتون قبائل کو دیوار سے لگانے کی کوشش کیوں کر رہی ہے؟

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ بڑا ہی  منصوبہ ہے لیکن اس کی اہمیت ہمارے مفادات سے زیادہ نہیں ہے۔ حکومت ایک طرف سی پیک کو اقتصادی استحکام کے لیے اہم قرار دے رہی ہے تو دوسری طرف مقامی باشندوں کو معاشی طور پر مزید عدم استحکام کا شکار بنایا جا رہا ہے۔  یہاں پشتون قبائل نے اپنی زمینوں کے حوالے سے جو بھی تحفظات پیش کیے ہیں، ان پر متعلقہ حکام جان بوجھ کو کوئی توجہ دے ہی نہیں رہے۔ اس طرح کی مجرمانہ غفلت سے حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔‘‘

بلوچستان: چینی ٹرالرز کی ماہی گیری پر مقامی آبادی کے تحفظات

تصویر: A. G. Kakar/DW

سی پیک کا سب سے مہنگا منصوبہ سست روی کا شکار

ملک سرور خان پانیزئی کا کہنا تھا کہ مغربی روٹ پر جاری احتجاج کے حوالے سے حکومت نے اگر طاقت کا استعمال کیا، تو پہلے سے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں حالات اور خراب ہوسکتے ہیں۔ ان کے مطابق، ''ہمارے قبائل نے اس مغربی روٹ کے حوالے سے حکومت کے ساتھ کئی بار مذاکرات کیے ہیں۔ حکومتی نمائندے ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے انہیں مزید الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پشتون قبائل نے ترقی کے عمل میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا ہے۔ حکومت اس ضمن میں بیرونی عناصر یا مقتدر طبقے کے مفادات کے بجائے زمینی حقائق کے مطابق اقدامات کرے۔‘‘

سابق وزیر اعلیٰ کا غیر معمولی دعویٰ

بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ  نے گزشتہ دنوں سی پیک منصوبے کے حوالے سے ایک غیرمعمولی دعویٰ کیا تھا۔ کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ سی پیک کے معاہدے کے موقع پر مرکزی حکومت نے بطور وزیر اعلیٰ انہیں بھی اعتماد میں نہیں لیا تھا۔ بلوچستان میں چینی اور دیگر غیر ملکی سرمایہ کاری پر بلوچ اور پشتون قوم پرست جماعتوں نے کئی بار تحفظات ظاہرکیے ہیں۔

چینی سرمایہ کاری سے بلوچستان میں غصہ کیوں؟

صوبے کے سیاسی قائدین کہتے ہیں کہ بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ہونے والے معاہدوں میں ماضی کی طرح موجودہ حکومت صوبے کے مفادات کو نظر انداز کر رہی ہے۔

بلوچستان میں کان کنی: ہماری شرکت کے بغیر نہیں، کوئٹہ حکومت

اسی دوران منگل 18 جنوری کے روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں بھی اراکین صوبائی اسمبلی نے صوبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری پرکئی سوالات اٹھائے۔ اراکین اسمبلی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مفادات کے برعکس ہونے والے کسی بھی معاہدے کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

واضح رہے کہ سی پیک کے مغربی روٹ میں موجودہ حکومت نے 11 نئے منصوبے شامل کیے ہیں، جن میں دیر چکدرہ موٹر وے سمیت 350 کلومیٹر طویل پشاور ڈیرہ اسماعیل خان موٹروے کا منصوبہ بھی شامل ہے، جس کی لاگت 350 ارب روپے سے زائد بتائی جاتی ہے۔

کیا سی پیک دونوں ممالک کے لیے یکساں مفید ثابت ہو گا؟

01:14

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں