1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گیم چینجر منصوبہ 'سی پیک‘ سست روی کا شکار کیوں؟

10 جولائی 2023

2013ء میں کامیابی کے بعد نواز شریف نے اپنا پہلا دورہ چین کا کیا تھا۔ اس دوران سی پیک کا معاہدہ طے پایا، جس میں دونوں ملکوں نے 8 یاداشتوں اور مختلف معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ آج یہی منصوبہ سست روی کا شکار ہو چکا ہے۔

Pakistanisch-chinesisches Kohlekraftwerk
تصویر: Thar Coal Company/XinHua/dpa/picture alliance

سی پیک معاہدے پر دستخط کے بعد اسے گیم چینجر منصوبہ کہا جانے لگا یعنی ایسا منصوبہ، جو معاشی مسائل حل کرتے ہوئے ملک کی قسمت بدل دے گا۔ اسے گیم چینجر کہنے والوں میں وزرائے اعظم، مختلف وفاقی وزیر اور ماہرین معاشیات شامل رہے۔

جولائی 2013 میں ہونے والے اس معاہدے کو دس برس مکمل ہو چکے ہیں۔ آئیے جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ابھی تک ملک کے لیے کس حد تک گیم چینجر ثابت ہوا اور آئندہ اس منصوبے سے کیا توقعات ہیں؟ ہم یہ بھی دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ کیا سی پیک سست روی کا شکار ہو چکا ہے؟ اور اس کی وجوہات کیا ہیں؟

نو میں سے ابھی تک ایک بھی صنعتی زون مکمل نہیں ہو سکاتصویر: A. G. Kakar/DW

 

سی پیک سے وابستہ توقعات کتنی حقیقی تھیں؟

1999ء سے 2002ء  تک پاکستان میں تعینات رہنے والے چین کے سفیر Lu Shulin اپنے مضمون 'سی پیک: ون بیلٹ اینڈ ون روڈ منصوبے کا اہم ترین اور مثالی قدم‘ میں اسے چین اور  پاکستان کی”سب سے بڑی معاشی پیش رفت" قرار دیتے ہیں۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نامور ماہر اقتصادیات اور پاکستان سٹاک ایکسچینج کے نمائندے آصف بیگ مرزا ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”ابتدا میں 46 اور بعد میں بتدریج 55 اور 62 ارب ڈالرز کا یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا معاشی منصوبہ تھا اس لیے توقعات اور جوش و خروش آسمان کو چھو رہا تھا۔ مسلم لیگ کی حکومت اسے اپنی کامیابی قرار دیتے ہوئے عوام کے ذہن میں تاثر پختہ کرنا چاہتی تھی کہ سی پیک ہم لائے ہیں اور اب ملک کی قسمت بدل جائے گی۔"

وہ مزید کہتے ہیں ”اتنی شد و مد سے اسے گیم چینجر کہا گیا کہ لگتا تھا ابھی دو چار برس میں 70 سالہ پسماندگی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ توقع غیر حقیقی مگر جوش و خروش قابل فہم تھا۔ اس دوران پاکستان کو سی پیک کے بہت سے فوائد ہوئے جو نظر انداز نہیں کیے جا سکتے۔"

 

سی پیک سے ابھی تک پاکستان کیا حاصل کر سکا؟

وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال اپنی ایک حالیہ گفتگو میں کہتے ہیں کہ چین نے سی پیک کے تحت لگ بھگ 29 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ذریعے پاکستان میں توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبے مکمل کیے اور پاکستان کی معیشت کے بڑے خلا کو دور کیا ہے۔

بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے اپنی 2016ء کی رپورٹ میں پاکستان کے توانائی بحران پر قابو پانے کی وجوہات میں ”سی پیک کے تحت پاور سیکٹر میں آنے والی چینی سرمایہ کاری سے پاکستان میں بجلی کی پیدوار میں تقریبا 10 ہزار میگاواٹ کے اضافے" کا خصوصی ذکر کیا ہے۔ سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کے مطابق ورنہ پاکستان کو ہر سال تقریبا 17 سو ارب روپے کا نقصان ہو رہا تھا۔

توانائی کے شعبے کے علاوہ سی پیک معاہدے سے پاکستان کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سی پیک کے دس سال: مشکلات، ترقی اور مواقع کے عنوان سے شائع ہونے والے اپنے مضمون میں سی پیک کے پروجیکٹ ڈائریکٹرز میں سے ایک ڈاکٹر حسن داؤد بٹ لکھتے ہیں کہ 2013ء سے 2022ء کے درمیان چین کی طرف پاکستانی برآمدات میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ڈاکٹر حسن داؤد کے مطابق ملک کو سی پیک کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کے ذریعے 147 ممالک، یعنی دنیا کی دو تہائی آبادی سے جڑ گیا۔ آئندہ 20 مختلف ممالک میں 56 اکنامک زون بنیں گے اور یہ سب پاکستانی معیشت کو غیر معمولی استحکام دے گا۔

 

پاکستان کے قرض میں بھاری اضافہ 

بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے 126 ارب ڈالر کے مجموعی بیرونی قرضوں میں تقریباً 30 ارب ڈالر چین کے ہیں۔ یہ رقم آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشائی ترقیاتی بینک سے حاصل کردہ قرضوں کی مجموعی رقم سے بھی زیادہ ہے۔

بہت سے ماہرین اقتصادیات سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو کم شرح منافع پر قرض لینے کے لیے زیادہ دباؤ ڈالنا چاہیے تھا۔ اس حوالے سے آصف بیگ مرزا کا کہنا تھا کہ پاکستان مالیاتی اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے ایسی پوزیشن میں نہیں تھا کہ چین سے زیادہ بحث کر سکے۔ یہ سوچ غیر منطقی ہے۔

سی پیک سے چھوٹے صوبوں کو لاحق تحفظات کا ایک اظہار گوادر میں چلنے والی حق دو تحریک ہےتصویر: Ghani Kakar

سی پیک سست روی کا شکار کیوں ہوا؟

سی پیک پر چھوٹے صوبوں سمیت بعض سٹیک ہولڈرز کو شروع سے ہی تحفظات تھے۔ مزید برآں ماہرین کے نزدیک غیر مستحکم سیاسی صورتحال اور پالیسی میں عدم تسلسل کے سبب سی پیک کی رفتار سست ہوئی۔

خیال رہے پہلے مرحلے میں توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو 2020ء تک مکمل ہونا تھا جو ابھی تک ادھورے ہیں۔

دوسرے مرحلے میں آئندہ پانچ برس کے دوران ملک میں نو اقتصادی اور صنعتی زون قائم ہونے تھے، جہاں چینی سرمایہ کار کمپنیوں نے سرمایہ کاری کرنا تھی۔ مگر ابھی تک ایک بھی صنعتی زون مکمل نہیں ہو سکا۔

ساؤتھ ایشین سٹرٹیجک سٹے بیلیٹی انسٹی ٹیوٹ آف کی ڈائیریکٹر جنرل ڈاکٹر ماریہ سلطان اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتی ہیں، ”سی پیک کی اہمیت سے تو کسی کو انکار نہیں لیکن اسے کیسے لے کر چلنا ہے اس معاملے میں مختلف سیاسی جماعتوں کی مختلف آراء ہیں، جس کا اثر کام کی رفتار پر ہوا۔ اس کے علاوہ کورونا وائرس اور سکیورٹی وجوہات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔"

 

واشنگٹن میں قائم ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین فارن پالیسی کے لیے اپنے ایک مضمون، کیا پاکستان چین تعلقات بند گلی میں داخل ہو چکے ہیں؟، میں لکھتے ہیں، ”گزشتہ برس شہباز شریف کے دورہ چین کے دوران چینی وزیراعظم لی جیانگ نے اپنے شہریوں کی پاکستان میں سکیورٹی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ جب تک سکیورٹی مسائل حل نہیں ہوتے سی پیک پر تیزی سے کام ممکن نہیں۔"

سی پیک سے چھوٹے صوبوں کو لاحق تحفظات کا ایک اظہار گوادر میں چلنے والی حق دو تحریک ہے۔ اس تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمان نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ”ہم سی پیک کے خلاف نہیں مگر کیسے ممکن ہے کہ اتنا بڑا منصوبہ مقامی آبادیوں کو نظر انداز کر کے آگے بڑھایا جائے۔ معاشی ترقی سیاسی استحکام سے مشروط ہوتی ہے مگر ہمیشہ کی طرح وفاق اب بھی مقامی برادریوں کو نظر انداز کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے۔"

 

کیا سی پیک آئندہ برسوں میں پاکستانی معیشت کو استحکام دے سکے گا؟

آصف بیگ مرزا کے مطابق ”سی پیک کے ثمرات اقتصادی اور صنعتی زون قائم ہونے کے بعد پوری طرح واضح ہونا شروع ہوں گے۔ اس کے بعد چینی کمپنیاں پاکستان میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کریں گی، جو ملکی معیشت کے لیے بہت سود مند ثابت ہو گا۔"

وہ کہتے ہیں اصل سوال یہ ہے، ”کیا 2025ء تک طے شدہ معاہدے کے مطابق پاکستان اکنامک زون قائم کر سکے گا۔ سی پیک کی سست روی سے پہلے ہی 40 بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ بہرحال یہ پاکستان کی ایک غیر معمولی جست ہے جس سے ملکی معیشت کو استحکام ملے گا۔ بس اس میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔‘‘

کیا سی پیک دونوں ممالک کے لیے یکساں مفید ثابت ہو گا؟

01:14

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں