1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

سی پیک منصوبہ: پاکستان کو کتنا نفع اور کتنا نقصان ہوا؟

عبدالستار، اسلام آباد
31 جولائی 2023

چین کے نائب وزیر اعظم لی فینگ پاکستان میں سی پیک کے دس برس مکمل ہونے پر مختلف پروگراموں میں شرکت کر رہے ہیں۔ ایسے میں کئی مبصرین اس پروجیکٹ کی تعریف و توصیف میں مصروف ہیں لیکن ناقدین اس کے نقصانات بھی گنوا رہے ہیں۔

سی پیک منصوبے کے تحت بنایا گیا ایک بجلی گھر
سی پیک نے دو لاکھ 36 ہزار روزگار کے مواقع فراہم کیے، جن میں سے ایک لاکھ 55 ہزار پاکستانی مزدوروں کے حصے میں آئےتصویر: Thar Coal Company/XinHua/dpa/picture alliance

باجوڑ دھماکے کے پیش نظرسی پیک کے حوالے سے چیلنجوں پر بھی بحث ہو رہی ہے کیونکہ سی پیک پر کام کرنے والے چینی اہلکاروں کی سکیورٹی پاکستان کے لئے ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ گلگت بلتستان، بلوچستان اور سندھ کے کچھ علاقوں میں چینی شہریوں پر حملے ہو چکے ہیں۔

سی پیک منصوبے کی دس سالہ تقریب، چینی نائب وزیر اعظم پاکستان میں

پچیس ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری

کئی چینی مبصرین کے خیال میں اس پروجیکٹ سے اسلام آباد کو بہت فائدہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر بیجنگ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر وینگ زو نے گزشتہ برس نومبر میں انگریزی روز نامہ ایکسپریس ٹریبیون کے لئے ایک کالم لکھا، جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ یہ پروجیکٹ پاکستان میں 25 اعشاریہ چار بلین ڈالر کی سرمایہ کاری لے کر آیا ہے۔

سی پیک نے پاکستان کی معیشت کو سہارا دیا

کئی پاکستانی مبصرین بھی یہ دعوی کرتے ہیں کہ سی پیک سے پاکستان کو فائدا ہوا ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار نوید حسین کا کہنا ہے کہ سی پیک ایک ایسے وقت میں پاکستان میں آیا، جب پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری بالکل نہیں آرہی تھی۔ نوید حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''45 بلین ڈالرز کے، جو ابتدائی سی پیک کے پروجیکٹس تھے، انہوں نے پاکستان کی مردہ معیشت میں جان پھونکی۔ جس سے توانائی اور انفراسٹرکچر سیکٹرز میں بہت بہتری آئی۔ گوادر بندرگاہ، ایئرپورٹ اور اکنامک زونز سے بھی ملک کو فائدہ ہو گا۔‘‘

چین کے نائب وزیر اعظم لی فینگ پاکستان میں سی پیک کے دس برس مکمل ہونے پر مختلف پروگراموں میں شرکت کر رہے ہیںتصویر: Pakistan Prime Minister Office/AP/picture alliance

 نوید حسین کے مطابق سی پیک نے دو لاکھ 36 ہزار روزگار کے مواقع فراہم کیے، جن میں سے ایک لاکھ 55 ہزار پاکستانی مزدوروں کے حصے میں آئے، ’’اس پروجیکٹ کی بدولت چینی سرمایہ کاروں کی دلچسپی پاکستان میں بڑھی اور ایک چینی کنسورشیم نے پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں 40 فیصد شیئر خریدے۔ علی بابا گروپ نے ٹیلی نور مائیکرو فنانس بینک میں 45 فیصد شیئر لیے ہیں۔ جبکہ دو چینی کمپنیاں فیصل آباد میں اسمارٹ فون بنانے کے لیے مینوفیکچرنگ پلانٹ لگا رہی ہیں۔‘‘

سی پیک منصوبے کا ماحولیات پر اثر

تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ سی پیک کے پروجیکٹ کے حوالے سے پروپیگنڈا بہت کیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر اس سے کچھ خاص فائدہ نہیں ہوا۔

حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن ڈاکٹر بخشل تھلو کا کہنا ہے کہ سی پیک پروجیکٹس نے ماحولیاتی طور پر تباہی مچائی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''تھرکول پروجیکٹ سے بمشکل اسی نوے نوکریاں مقامی لوگوں کو حاصل ہوئی لیکن وہاں زیر زمین پانی خراب ہو رہا ہے اور کھیتی باڑی کے علاقے تباہ ہو رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح کول پاور پروجیکٹس نے پنجاب میں بھی تباہی مچائی۔‘‘

بخشل تھلو کے مطابق ان پروجیکٹس میں مقامی لوگوں کے مفادات کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔

چینی قرضہ اٹھائیس ارب ڈالرز سے بھی زیادہ

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر شاہد محمود کا کہنا ہے کہ سی پیک کے پروجیکٹس سے کوئی خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' گوادر پورٹ پر جتنی ٹریفک آنی تھی، اس کا دس فیصد بھی نہیں آرہی۔ توانائی کی یہ صورتحال ہے کہ ہم اربوں روپیہ چینی توانائی کی کمپنیوں کو ادا کر رہے ہیں، چاہے وہ بجلی پیدا کریں یا نہ کریں، جس کی وجہ سے صرف چینی پاور کمپنیوں کا بل تقریبا 500 ارب روپیہ پہنچ گیا ہے۔‘‘

چین کے نائب وزیر اعظم لی فینگ پاکستان میں سی پیک کے دس برس مکمل ہونے پر مختلف پروگراموں میں شرکت کر رہے ہیںتصویر: PID/AFP

ڈاکٹر شاہد محمود کا کہنا تھا کہ انفراسٹرکچر ہونے کے باوجود مزید انفراسٹرکچر کے پروگرامز بنائے گئے، جس سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، ''بن قاسم پر اسپیشل اکنامک زون پہلے سے موجود تھا لیکن اس کو استعمال نہیں کیا گیا اور مزید اکنامک زون بنا دیے گئے۔ اس طرح کے غیر ضروری پروجیکٹس کی وجہ سے ہمیں چین سے بھاری قرضہ لینا پڑا، جو اب تقریبا 28 بلین ڈالر ہے۔‘‘

چین پر الزام مناسب نہیں

تاہم کچھ معاشی مبصرین کا خیال ہے کہ چینی حکومت پر الزام تھوپنا بالکل غلط ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے سربراہ ڈاکٹر ندیم الحق کا کہنا ہے کہ دنیا میں جو بھی ملک پروجیکٹس لے کر آتا ہے، اس میں اس کے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ضرورت اس امر کی تھی کہ ہمارے حکمران چین سے صحیح طور پر بات چیت کرتے اور ایسے پروجیکٹس ملک کے لیے تجویز کرتے، جو ملک کی معاشی حالت کو بہتر کرتے اور ریوینیو میں اضافہ کرتے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں نے ایسے پروجیکٹس جیسے کہ اورنج لائن تجویز کیے، جن سے ہمیں معاشی اور مالی طور پر نقصان ہوا۔‘‘

ڈاکٹر ندیم الحق کے مطابق چین نے وہی کیا، جو ایک ٹھیکے دار کرتا ہے، ''آپ کسی ٹھیکے دار سے کہیں کہ فلاں روڈ یا فلاں انڈر پاس تعمیر کر دیں، تو وہ تعمیر کر دے گا۔ کوئی پروجیکٹ کمرشل لحاظ سے کتنا فائدے مند ہے، یہ کام چین کا نہیں بلکہ ہماری حکومت کا تھا کہ وہ اس پہ سوچ و بچار کرے۔‘‘

سی پیک نے دو لاکھ 36 ہزار روزگار کے مواقع فراہم کیے، جن میں سے ایک لاکھ 55 ہزار پاکستانی مزدوروں کے حصے میں آئے

اسپیشل اکنامک زونز کا قیام

واضح رہے کہ سی پیک کے زیر اہتمام پاکستان نے بہت سارے سپیشل اکنامک زونز بھی قائم کیے گیے ہیں۔ ان زونز کو قائم کرنے والوں کی دلیل تھی کہ چین میں بڑھتی ہوئی مزدوروں کی اجرت اشتراکی ملک کو اس بات پہ مجبور کرے گی کہ وہ اپنی انڈسٹری کو پاکستان یا دوسرے ملکوں میں شفٹ کرے، جس سے پاکستان میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔

سی پیک منصوبہ

واضح رہے کہ سی پیک کے تحت سب سے زیادہ کام توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں ہوا ہے۔ سی پیک کے تحت تکمیل پانے والے والے پاور پلانٹس میں ساہیوال کول پاور پلانٹ، بن قاسم کول پاور پلانٹ، چائنہ حب کول پاور پروجیکٹ، اینگرو تھرکول پاور پروجیکٹ، قائد اعظم سولر پارک، ہائیڈرو چائنا داؤد فارم اور دیگر شامل ہیں۔ ان کی کلُ تعداد 14 بنتی ہے۔

سکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور گوادر کول پاور پروجیکٹ ابھی زیر تعمیر ہیں، جب کہ سی پیک کے تحت مزید پانچ پرو جیکٹ زیرغور ہیں۔ سکھر ملتان موٹروے سمیت سی پیک کے تحت کئی انفرا اسٹرکچر پروجیکٹس میں مکمل کیے گئے ہیں۔

کیا سی پیک دونوں ممالک کے لیے یکساں مفید ثابت ہو گا؟

01:14

This browser does not support the video element.

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں