سی پیک منصوبے کے مزدوروں پر گرینیڈ حملہ، چھبیس مزدور زخمی
صائمہ حیدر
20 اکتوبر 2017
پاکستان کی گوادر پورٹ میں پولیس کا کہنا ہے کہ نامعلوم افراد نے سی پیک منصوبے کے ایک پروجیکٹ پر کام کرنے والے مزدوروں کے ایک ہاسٹل پر دستی بموں سے حملہ کیا ہے، جس میں چھبیس افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
اشتہار
پولیس کے مطابق یہ حملہ آج بروز جمعہ بیس اکتوبر کو ہوا۔ حملے کی ذمہ داری تاحال کسی گروہ نے قبول نہیں کی ہے۔ پولیس افسر امام بخش نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ، ’’مزدور ہوسٹل میں رات کا کھانا کھا رہے تھے جب موٹر سائیکل پر سوار چند افراد نے اُن پر دستی بم پھینکے۔
بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسند کئی برسوں سے گوادر کی بندرگاہ سمیت توانائی اور بنیادی ڈھانچوں کے منصوبوں پر حملے کرتے آ رہے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ صوبے کے وسائل کا استحصال کیا جا رہا ہے۔
افغانستان اور ایران کے ساتھ مشترک سرحد کے حامل صوبہ بلوچستان میں اسلامی عسکریت پسند بھی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔
بلوچستان میں سیکورٹی حکام کا کہنا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت مختلف منصوبوں میں عسکریت پسندوں کی جانب سے رکاوٹیں حائل کرنے کی کوشش میں سن 2014 سے اب تک پچاس سے زائد پاکستانی مزدور ہلاک ہو چکے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان نے چین کو اس بات کی یقین دہانی کرا رکھی ہے کہ وہ سی پیک کے تحت 57 بلین ڈالر مالیت کے مختلف منصوبوں کے لیے سکیورٹی فراہم کر سکتا ہے۔
ایک پولیس اہلکار کے مطابق دوسرا گرینیڈ حملہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے پچپن کلو میٹر دور مستونگ کے قصبے میں کھانے پینے کی ایک مارکیٹ میں ہوا، جس میں پندرہ افراد زخمی ہوئے۔
صوبے کے مغربی علاقے میں ہوئے ایک تیسرے حملے میں ایک موٹر سائیکل سوار نے پیرا ملٹری اہلکاروں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہو گئے تھے۔
اس سے قبل رواں ماہ ہی صوبہ بلوچستان کے ضلع جھل مگسی میں ایک صوفی مزار پر خود کش بم حملے میں بائیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا داعش نے قبول کی تھی۔
سی پیک کے تحت کراچی سرکلر ریلوے نظام کے احیاء کا منصوبہ
پاکستانی حکومت بیس برسوں سے معطل کراچی میں لوکل ٹرینوں کے نظام کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے سی پیک کے تحت کام کا آغاز کرنے والی ہے۔ چین نے اس مد میں 1.7 بلین یورو کی سرمایہ کاری کی ہے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
رابطے منقطع
سن 1999 میں کراچی میں سرکلر ٹرینوں کے بند ہونے کے بعد سے کراچی کے شہریوں کے لیے آمد ورفت جان کا عذاب بنا ہوا ہے۔ لوکل ٹرینیں کراچی کے مضافاتی علاقوں کے رہنے والوں کو شہر کے اقتصادی اور صنعتی زونوں سے مربوط رکھتی تھیں۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
افراتفری اور آلودگی
کراچی کی آبادی قریب بیس ملین ہے، اس کے باوجود وہاں کوئی مناسب ٹرانسپورٹ سسٹم موجود نہیں۔ منصوبے کی تکمیل کے بعد نہ صرف کراچی کے غیر معمولی اور بے ہنگم ٹریفک میں کمی آئے گی بلکہ موٹر گاڑیوں سے نکلتے بے پناہ دھوئیں میں بھی کمی پیدا کرے گی۔ اس طرح فضائی آلودگی میں کمی پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔
تصویر: picture-alliance/Asianet Pakistan/R. Ali
ریلوے کی پٹریوں پر ناجائز تجاوزات
اگرچہ تینتالیس کلو میٹر طویل کراچی سرکلر ریلوے کا بڑا حصہ اب بھی موجود ہے لیکن اس پر جا بجا غیر قانونی تعمیرات بن چکی ہیں۔ یہ ناجائز تجاوزات نہ صرف ریلوے ٹریک کے آس پاس ہیں بلکہ بعض مقامات پر پٹریوں کے اوپر بھی نظر آتی ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
انہدام اور از سر نو تعمیر
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق کراچی لوکل ٹرین سسٹم کو دوبارہ شروع کرنے سے قبل قریب 5،000 گھر اور سات ہزار دیگر تجاوزات کو گرایا جانا ضروری ہے۔ توقع ہے کہ متعدد رکاوٹوں کے باوجود اس منصوبے پر رواں برس ہی کام شروع کر دیا جائے گا۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
رہائشیوں کی جانب سے مزاحمت
اس سال اپریل میں جب حکومت نے تجاوزات گرانے کی کوشش کی تو کچی بستیوں کے رہائشیوں نے شدید احتجاج کیا۔ ایک طویل عرصے سے ریلوے لائن کے قریب بسنے والے افراد کی پولیس سے جھڑپیں ہوئیں اور اُنہوں نے بلڈوزروں کو بھی آگ لگائی۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’نیو سلک روڈ‘ کا حصہ
کراچی میں ریلوے سرکلر روڈ کا احیاء چین کے ’نیو سلک روڈ‘ نامی بین الاقوامی اِنی شی ایٹو پلان کا ایک حصہ ہے۔ اس کے لیے رقم پاک چین اقتصادی راہداری پروجیکٹ سے دی جائے گی۔