1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سی پیک میں سعودی سرمایہ کاری: ’ایران کو کوئی اعتراض نہیں‘

4 اکتوبر 2018

پاکستان میں متعین ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست کہتے ہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اورایران ایک صفحے پر ہیں اور امریکا معاشی پابندیوں کے ذریعے ایران کو اپنے مفادات کے لیے کبھی دباؤ میں نہیں لا سکتا۔

Pakistan Quetta - iranische Diplomaten in Baluchistan
تصویر: DW/A. Ghani Kakar

جمعرات چار اکتوبر کے روز کوئٹہ میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے مہدی ہنر دوست نے پاک ایران تعلقات، خطے میں قیام امن کی صورتحال، ایران پر متوقع امریکی معاشی پابندیوں اور دیگر اہم امور پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

ایرانی سفیر نے کہا کہ ایران خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے اور اپنی سلامتی پر کسی بھی طور پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا، ’’ایران نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں لازوال قربانیاں دی ہیں۔ ہمیں بہت بڑے پیمانے پر اس جنگ میں جانی اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایران ایشاء اور یورپ کی ٹرانزٹ لائن پر واقع ہے۔ اس روٹ پر بہت غیرقانونی نقل و حرکت بھی ہوتی ہے۔ ہمارےارد گرد پندرہ ہمسایہ ممالک ہیں۔ بعض شدت پسند تنظیمں سرحد پار سے ایران پر حملے کر کے ان ممالک کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ہم نے صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ایران ایک طویل تاریخ کا حامل ملک ہے۔ ہم اپنے وسائل کو بروئے کار لا رہے ہیں اور کسی کوہم نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔‘‘

ایرانی سفیر نے پاکستان کے معاشی منصوبوں کے حوالے  سے ہونے والے تبصروں پربھی واضح موقف پیش کیا۔ انہوں نے کہا، ’’پاک چائنا اکنامک کوریڈور منصوبہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے ایک کلیدی اور گیم چینجر منصوبہ ہے۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس منصوبے میں سعودی عرب سمیت کسی بھی ملک کی سرمایہ کاری یا شراکت داری پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہم پاکستان کو ایک مستحکم اور خوشحال دوست ملک کے طور ہر دیکھنا چاہتے ہیں۔ بعض عالمی طاقتیں مسلم ممالک کے اندرونی معاملات سے فائدہ اٹھا کر انہیں غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘‘

ایرانی سفیر نے دورہ کوئٹہ کے دوران وزیراعلیٰ بلوچستان سمیت دیگر اہم حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتیں کیںتصویر: DW/A. Ghani Kakar

ایرانی سفیر نے اس امر پر بھی زور دیا کہ اسلام آباد حکومت پاک ایران گیس منصوبے میں پیش رفت کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے تاکہ یہاں توانائی سمیت دیگر شعبوں کی ترقی ممکن ہو۔

ایرانی سفیر نے کہا کہ بلوچستان ایران کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل صوبہ ہے اور یہاں تجارتی حجم بڑھانے اور دیگر امور پر پیش رفت کے لیے حالیہ دورے کے دوران انہوں نے اعلیٰ سول اور فوجی حکام سے بھی اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ رواں ماہ ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا ۔

ایرانی سفیر کے بلوچستان کے حالیہ دورے کو مبصرین نے موجودہ حالات کے تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔

اسلام آباد میں مقیم 'پاک چائنا اسٹڈی سینٹر‘ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طلعت شبیر کے بقول ایران اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات خطے کی سلامتی اور پائیدار امن کے لیے ناگزیر ہیں ۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر شبیر کا کہنا تھا، ’’اس وقت ایران متوقع امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایک معاشی بحرانی کیفیت کا شکارہے۔ معاشی استحکام کے لیے ایران ہمسایہ ممالک سے اپنے تعلقات کومذید بہتر کرنے اورامریکا کے خلاف ان کی حمایت جیتنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ایرانی سفیر کا کوئٹہ کا حالیہ جو دورہ ہے وہ بھی انہی کوششوں کی ایک کڑی دکھائی دے رہی ہے۔‘‘

ڈاکٹر طلعت شبیر نے کہا کہ ماضی میں پاک ایران تعلقات جن نشیب و فراز سے گزرے ہیں، ان سے نمٹنے کے لیے دو طرفہ تعلقات کو از سرنو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول، ’’میرا زاتی طور پر یہ خیال ہے کہ اب شاید ایران یہ چاہتا ہے کہ پاکستان مشکل کے گھڑی میں اس کا ساتھ دے۔ لیکن پاکستان سفارتی سطح پر تو شاید اس ایرانی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچائے لیکن عملی طور پر امریکی معاشی پابندیوں کے بعد شاید پاکستان ایران کی کوئی اورمعاونت نہ کرسکے۔‘‘

ڈاکٹر طلعت شبیر کا کہنا تھا کہ خطے میں بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں تمام ہمسایہ ممالک کو دور اندیشی پر مبنی اقدمات کرنے ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اس وقت نہ پاکستان اورنہ ہی ایران اس پوزیشن میں ہیں کہ مزید کسی بحران کا متحمل ہوں۔ بلوچستان چونکہ ایرانی سرحد سے ملحقہ صوبہ ہے اس لیے ایران معاشی پابندیوں کے بعد اس روٹ پر تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دورے کے دوران ایرانی سفیر نے کوئٹہ میں صنعت و تجارت کے شعبے سے وابستہ عہدیداروں سے اس حوالے سے بھی اہم ملاقاتیں کی ہیں۔‘‘

بلوچستان کے سیاسی امور کے ماہر ندیم مریانی کے بقول پاکستان اور ایران بیرونی دباؤ کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''اس وقت پاکستان اور ایران توانائی سمیت دیگر اہم شعبوں میں ایک دوسرے کو بہترین معاونت فراہم کر سکتے ہیں۔ ایران میں جو شدت تنظیمیں بد امنی میں ملوث ہیں، ان کی سرگرمیاں ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاک ایران تعلقات میں حائل دوریوں کو ختم کیا جائے۔ پاکستان ایرانی تیل اور ایل پی جی گیس سمیت دیگر شعبوں میں ایران کے ساتھ کئی اہم منصوبوں پر کام کرسکتا ہے اور اگر پاکستان پاک ایران گیس منصوبے کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچائے تو میرے خیال میں ملک بہت جلد توانائی کے حالیہ سنگین بحران سے باہر نکل آئے گا۔‘‘

دفاعی امور کے ایک سینئر پاکستانی تجزیہ کار میجر(ر) عمر فاروق کے بقول ممکنہ امریکی معاشی پابنیدوں کے بعد ایران خطے میں معاشی بحرانوں سے نکلنے کے لیے جن کوششوں میں مصروف ہے، ان میں خاطر خواہ پیش رفت سامنے آئی ہے۔ عمرفاروق نے بتایا کہ کہ اگر پاکستان ایران سے امریکی پابنیدوں کے باجود اپنے تعلقات قائم رکھے اور پاک ایران ٹریڈ میں بھی تسلسل برقرا رہے تو اس کے نتائج اتنے سنگین نہیں ہوں گے، جتنا کہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

ایرانی سفیر نے دورہ کوئٹہ کے دوران وزیراعلیٰ بلوچستان سمیت جن دیگر اہم حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کی، انہوں نے بھی ایران کو مشکل کی گھڑی میں بھرپور ساتھ دینے کا عندیہ دیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں