پاکستان میں متعین ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست کہتے ہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اورایران ایک صفحے پر ہیں اور امریکا معاشی پابندیوں کے ذریعے ایران کو اپنے مفادات کے لیے کبھی دباؤ میں نہیں لا سکتا۔
اشتہار
جمعرات چار اکتوبر کے روز کوئٹہ میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے مہدی ہنر دوست نے پاک ایران تعلقات، خطے میں قیام امن کی صورتحال، ایران پر متوقع امریکی معاشی پابندیوں اور دیگر اہم امور پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
ایرانی سفیر نے کہا کہ ایران خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے اور اپنی سلامتی پر کسی بھی طور پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا، ’’ایران نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں لازوال قربانیاں دی ہیں۔ ہمیں بہت بڑے پیمانے پر اس جنگ میں جانی اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایران ایشاء اور یورپ کی ٹرانزٹ لائن پر واقع ہے۔ اس روٹ پر بہت غیرقانونی نقل و حرکت بھی ہوتی ہے۔ ہمارےارد گرد پندرہ ہمسایہ ممالک ہیں۔ بعض شدت پسند تنظیمں سرحد پار سے ایران پر حملے کر کے ان ممالک کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ہم نے صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ایران ایک طویل تاریخ کا حامل ملک ہے۔ ہم اپنے وسائل کو بروئے کار لا رہے ہیں اور کسی کوہم نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔‘‘
ایرانی سفیر نے پاکستان کے معاشی منصوبوں کے حوالے سے ہونے والے تبصروں پربھی واضح موقف پیش کیا۔ انہوں نے کہا، ’’پاک چائنا اکنامک کوریڈور منصوبہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے ایک کلیدی اور گیم چینجر منصوبہ ہے۔ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں اس منصوبے میں سعودی عرب سمیت کسی بھی ملک کی سرمایہ کاری یا شراکت داری پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ہم پاکستان کو ایک مستحکم اور خوشحال دوست ملک کے طور ہر دیکھنا چاہتے ہیں۔ بعض عالمی طاقتیں مسلم ممالک کے اندرونی معاملات سے فائدہ اٹھا کر انہیں غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘‘
ایرانی سفیر نے اس امر پر بھی زور دیا کہ اسلام آباد حکومت پاک ایران گیس منصوبے میں پیش رفت کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے تاکہ یہاں توانائی سمیت دیگر شعبوں کی ترقی ممکن ہو۔
ایرانی سفیر نے کہا کہ بلوچستان ایران کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل صوبہ ہے اور یہاں تجارتی حجم بڑھانے اور دیگر امور پر پیش رفت کے لیے حالیہ دورے کے دوران انہوں نے اعلیٰ سول اور فوجی حکام سے بھی اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ رواں ماہ ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا ۔
ایرانی سفیر کے بلوچستان کے حالیہ دورے کو مبصرین نے موجودہ حالات کے تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم 'پاک چائنا اسٹڈی سینٹر‘ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر طلعت شبیر کے بقول ایران اور پاکستان کے درمیان بہتر تعلقات خطے کی سلامتی اور پائیدار امن کے لیے ناگزیر ہیں ۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر شبیر کا کہنا تھا، ’’اس وقت ایران متوقع امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایک معاشی بحرانی کیفیت کا شکارہے۔ معاشی استحکام کے لیے ایران ہمسایہ ممالک سے اپنے تعلقات کومذید بہتر کرنے اورامریکا کے خلاف ان کی حمایت جیتنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ایرانی سفیر کا کوئٹہ کا حالیہ جو دورہ ہے وہ بھی انہی کوششوں کی ایک کڑی دکھائی دے رہی ہے۔‘‘
ڈاکٹر طلعت شبیر نے کہا کہ ماضی میں پاک ایران تعلقات جن نشیب و فراز سے گزرے ہیں، ان سے نمٹنے کے لیے دو طرفہ تعلقات کو از سرنو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ان کے بقول، ’’میرا زاتی طور پر یہ خیال ہے کہ اب شاید ایران یہ چاہتا ہے کہ پاکستان مشکل کے گھڑی میں اس کا ساتھ دے۔ لیکن پاکستان سفارتی سطح پر تو شاید اس ایرانی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچائے لیکن عملی طور پر امریکی معاشی پابندیوں کے بعد شاید پاکستان ایران کی کوئی اورمعاونت نہ کرسکے۔‘‘
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔
تصویر: Reuters/TT News Agency/Annika AF Klercker
8 تصاویر1 | 8
ڈاکٹر طلعت شبیر کا کہنا تھا کہ خطے میں بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں تمام ہمسایہ ممالک کو دور اندیشی پر مبنی اقدمات کرنے ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اس وقت نہ پاکستان اورنہ ہی ایران اس پوزیشن میں ہیں کہ مزید کسی بحران کا متحمل ہوں۔ بلوچستان چونکہ ایرانی سرحد سے ملحقہ صوبہ ہے اس لیے ایران معاشی پابندیوں کے بعد اس روٹ پر تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ دورے کے دوران ایرانی سفیر نے کوئٹہ میں صنعت و تجارت کے شعبے سے وابستہ عہدیداروں سے اس حوالے سے بھی اہم ملاقاتیں کی ہیں۔‘‘
بلوچستان کے سیاسی امور کے ماہر ندیم مریانی کے بقول پاکستان اور ایران بیرونی دباؤ کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''اس وقت پاکستان اور ایران توانائی سمیت دیگر اہم شعبوں میں ایک دوسرے کو بہترین معاونت فراہم کر سکتے ہیں۔ ایران میں جو شدت تنظیمیں بد امنی میں ملوث ہیں، ان کی سرگرمیاں ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پاک ایران تعلقات میں حائل دوریوں کو ختم کیا جائے۔ پاکستان ایرانی تیل اور ایل پی جی گیس سمیت دیگر شعبوں میں ایران کے ساتھ کئی اہم منصوبوں پر کام کرسکتا ہے اور اگر پاکستان پاک ایران گیس منصوبے کو جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچائے تو میرے خیال میں ملک بہت جلد توانائی کے حالیہ سنگین بحران سے باہر نکل آئے گا۔‘‘
دفاعی امور کے ایک سینئر پاکستانی تجزیہ کار میجر(ر) عمر فاروق کے بقول ممکنہ امریکی معاشی پابنیدوں کے بعد ایران خطے میں معاشی بحرانوں سے نکلنے کے لیے جن کوششوں میں مصروف ہے، ان میں خاطر خواہ پیش رفت سامنے آئی ہے۔ عمرفاروق نے بتایا کہ کہ اگر پاکستان ایران سے امریکی پابنیدوں کے باجود اپنے تعلقات قائم رکھے اور پاک ایران ٹریڈ میں بھی تسلسل برقرا رہے تو اس کے نتائج اتنے سنگین نہیں ہوں گے، جتنا کہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ایرانی سفیر نے دورہ کوئٹہ کے دوران وزیراعلیٰ بلوچستان سمیت جن دیگر اہم حکومتی عہدیداروں سے ملاقات کی، انہوں نے بھی ایران کو مشکل کی گھڑی میں بھرپور ساتھ دینے کا عندیہ دیا ہے۔
دنیا کے کرپٹ ترین ممالک
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ’کرپشن پرسپشن انڈیکس 2017‘ میں دنیا کے ایک سو اسی ممالک کی کرپشن کے حوالے سے درجہ بندی کی گئی ہے۔ کرپٹ ترین ممالک پر ایک نظر
تصویر: picture-alliance/U.Baumgarten
1۔ صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ 9 پوائنٹس حاصل کر کے 180ویں نمبر پر ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق سن 2016 میں صومالیہ کے دس پوائنٹس تھے جب کہ اس سے گزشتہ تین برسوں کے دوران بھی یہ ملک آٹھ کے اسکور کے ساتھ کرپٹ ترین ملک رہا تھا۔
2۔ جنوبی سوڈان
افریقی ملک جنوبی سوڈان بارہ کے اسکور کے ساتھ 179ویں نمبر پر رہا۔ سن 2014 اور 2015 میں جنوبی سوڈان کو پندرہ پوائنٹس دیے گئے تھے تاہم گزشتہ دو برسوں کے دوران اس افریقی ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
3۔ شام
سب سے بدعنوان سمجھے جانے ممالک میں تیسرے نمبر پر شام ہے جسے 14 پوائنٹس ملے۔ سن 2012 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے ایک سال بعد شام کا اسکور 26 تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
4۔ افغانستان
کئی برسوں سے جنگ زدہ ملک افغانستان ’کرپشن پرسپشین انڈیکس 2017‘ میں 15 کے اسکور کے ساتھ چوتھا کرپٹ ترین ملک قرار پایا۔ پانچ برس قبل افغانستان آٹھ پوائنٹس کے ساتھ کرپٹ ترین ممالک میں سرفہرست تھا۔
تصویر: DW/H. Sirat
5۔ یمن
خانہ جنگی کے شکار مشرق وسطیٰ کا ایک اور ملک یمن بھی 16 کے اسکور کے ساتھ ٹاپ ٹین کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں شامل رہا۔ سن 2012 میں یمن 23 پوائنٹس کے ساتھ نسبتا کم کرپٹ ملک تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Arhab
6۔ سوڈان
افریقی ملک سوڈان بھی جنوبی سوڈان کی طرح پہلے دس بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ سوڈان 16 کے اسکور حاصل کر کے یمن کے ساتھ عالمی درجہ بندی میں 175ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Chol
7۔ لیبیا
شمالی افریقی ملک لیبیا 17 پوائنٹس کے ساتھ کُل ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 171ویں نمبر پر رہا۔ سن 2012 میں لیبیا کا اسکور اکیس تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Malla
8۔ شمالی کوریا
شمالی کوریا کو پہلی مرتبہ اس انڈیکس میں شامل کیا گیا اور یہ ملک بھی سترہ پوائنٹس حاصل کر کے لیبیا کے ساتھ 171ویں نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/W. Maye-E
9۔ گنی بساؤ اور استوائی گنی
وسطی افریقی ممالک گنی بساؤ اور استوائی گنی کو بھی سترہ پوائنٹس دیے گئے اور یہ لیبیا اور شمالی کوریا کے ساتھ مشترکہ طور پر 171ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kambou
10۔ وینیزویلا
جنوبی امریکی ملک وینیزویلا 18 کے مجموعی اسکور کے ساتھ ایک سو اسی ممالک کی اس فہرست میں 169ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Barreto
بنگلہ دیش، کینیا اور لبنان
جنوبی ایشائی ملک بنگلہ دیش سمیت یہ تمام ممالک اٹھائیس پوائنٹس کے ساتھ کرپشن کے حوالے سے تیار کردہ اس عالمی انڈیکس میں 143ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A.M. Ahad
ایران، یوکرائن اور میانمار
پاکستان کا پڑوسی ملک ایران تیس پوائنٹس حاصل کر کے چار دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ طور پر 130ویں نمبر پر رہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/S. Coskun
پاکستان، مصر، ایکواڈور
پاکستان کو 32 پوائنٹس دیے گئے اور یہ جنوبی ایشیائی ملک مصر اور ایکواڈور کے ساتھ کل 180 ممالک میں میں مشترکہ طور پر 117ویں نمبر پر ہے۔ سن 2012 میں پاکستان کو 27 پوائنٹس دیے گئے تھے۔
تصویر: Creative Commons
بھارت اور ترکی
بھارت، ترکی، گھانا اور مراکش چالیس کے مجموعی اسکور کے ساتھ مشترکہ طور پر 81ویں نمبر پر ہیں۔