ایک گاؤں سے نکل کر کرکٹ کی قومی ٹیم میں جگہ بنانا پاکستانی لیگ اسپنر شاداب خان کے لیے آسان نہیں تھا۔ اپنی انتہائی محنت کی وجہ سے وہ عالمی کپ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والی ٹیم میں بھی شامل ہیں۔
اشتہار
سخت تربیت اور غیر معمولی عزم کی وجہ سے پاکستانی لیگ اسپنر شاداب خان چند ہی برسوں میں کلب کرکٹ سے عالمی کپ کے دستے میں شامل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ بیس سالہ شاداب ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی عالمی درجہ بندی میں تیسرے مقام پر ہیں۔
وہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی توجہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے ہیں، جن کی قیادت میں پاکستان ٹیم نے 1992ء کا عالمی کپ جیتا تھا۔
انگلینڈ روانہ ہونے سے قبل پاکستانی دستے کی وزیر اعظم خان سے ملاقات کے دوران جب انہوں نے شاداب خان کو سراہا تو وہاں پر موجود ٹیم کے کوچ اور ان تمام دیگر کھلاڑیوں کو اس پر کوئی تعجب نہیں ہوا، جو انہیں جانتے ہیں۔
شاداب کے سابق کلب کے کوچ سجاد احمد نے بتایا، ’’کرکٹ کے لیے شاداب کے عزم کا کوئی مقابلہ نہیں۔ وہ رات نو بجے تک سو جاتا ہے اور صبح سورج طلوع ہونے سے قبل گراؤنڈ میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ سالوں سے اس کا معمول ہے اور اس طرح وہ زیادہ سے زیادہ وقت تربیت میں صرف کرتا ہے۔‘‘
شاداب ڈسٹرک میانوالی کے میدانوں میں کرکٹ کھیلتے ہوئے بڑے ہوئے ہیں۔ یہ وزیر اعظم عمران خان کا بھی آبائی علاقہ ہے اور سابق کپتان مصباح الحق کا تعلق بھی یہیں سے ہے۔
بین الاقوامی کرکٹ کے متنازع ترین واقعات
آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا حالیہ بال ٹیمپرنگ اسکینڈل ہو یا ’باڈی لائن‘ اور ’انڈر آرم باؤلنگ‘ یا پھر میچ فکسنگ، بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ کئی تنازعات سے بھری پڑی ہے۔ دیکھیے عالمی کرکٹ کے چند متنازع واقعات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: REUTERS
2018: آسٹریلوی ٹیم اور ’بال ٹیمپرنگ اسکینڈل‘
جنوبی افریقہ کے خلاف ’بال ٹیمپرنگ‘ اسکینڈل کے نتیجے میں آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے کپتان اسٹیون اسمتھ اور نائب کپتان ڈیوڈ وارنر پرایک سال کی پابندی عائد کردی ہے۔ کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں آسٹریلوی کھلاڑی کیمرون بن کروفٹ کو کرکٹ گراؤنڈ میں نصب کیمروں نے گیند پر ٹیپ رگڑتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔ بعد ازاں اسٹیون اسمتھ اور بن کروفٹ نے ’بال ٹیمپرنگ‘ کی کوشش کا اعتراف کرتے ہوئے شائقین کرکٹ سے معافی طلب کی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Krog
2010: اسپاٹ فکسنگ، پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کی بدترین ’نو بال‘
سن 2010 میں لندن کے لارڈز کرکٹ گراؤنڈ پر سلمان بٹ کی کپتانی میں پاکستانی فاسٹ باؤلر محمد عامر اور محمد آصف نے جان بوجھ کر ’نوبال‘ کروائے تھے۔ بعد میں تینوں کھلاڑیوں نے اس جرم کا اعتراف کیا کہ سٹے بازوں کے کہنے پر یہ کام کیا گیا تھا۔ سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف برطانیہ کی جیل میں سزا کاٹنے کے ساتھ پانچ برس پابندی ختم کرنے کے بعد اب دوبارہ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔
تصویر: AP
2006: ’بال ٹیمپرنگ کا الزام‘ انضمام الحق کا میچ جاری رکھنے سے انکار
سن 2006 میں پاکستان کے دورہ برطانیہ کے دوران اوول ٹیسٹ میچ میں امپائرز کی جانب سے پاکستانی ٹیم پر ’بال ٹیمپرنگ‘ کا الزام لگانے کے بعد مخالف ٹیم کو پانچ اعزازی رنز دینے کا اعلان کردیا گیا۔ تاہم پاکستانی کپتان انضمام الحق نے بطور احتجاج ٹیم میدان میں واپس لانے سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں آسٹریلوی امپائر ڈیرل ہارپر نے انگلینڈ کی ٹیم کو فاتح قرار دے دیا۔
تصویر: Getty Images
2000: جنوبی افریقہ کے کپتان ہنسی کرونیے سٹے بازی میں ملوث
سن 2000 میں بھارت کے خلاف کھیلے گئے میچ میں سٹے بازی کے سبب جنوبی افریقہ کے سابق کپتان ہنسی کرونیے پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی۔ دو برس بعد بتیس سالہ ہنسی کرونیے ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ ہنسی کرونیے نے آغاز میں سٹے بازی کا الزام رد کردیا تھا۔ تاہم تفتیش کے دوران ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کپتان کی جانب سے میچ ہارنے کے عوض بھاری رقم کی پشکش کی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Zieminski
2000: میچ فکسنگ: سلیم ملک پر تاحیات پابندی
سن 2000 ہی میں پاکستان کے سابق کپتان سلیم ملک پر بھی میچ فکسنگ کے الزام کے نتیجے میں کرکٹ کھیلنے پر تاحیات پابندی عائد کی گئی۔ جسٹس قیوم کی تفتیشی رپورٹ کے مطابق سلیم ملک نوے کی دہائی میں میچ فکسنگ میں ملوث پائے گئے تھے۔ پاکستانی وکٹ کیپر راشد لطیف نے سن 1995 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ایک میچ کے دوران سلیم ملک کے ’میچ فکسنگ‘ میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
1981: چیپل برادران اور ’انڈر آرم‘ گیندبازی
آسٹریلوی گیند باز ٹریور چیپل کی ’انڈر آرم باؤلنگ‘ کو عالمی کرکٹ کی تاریخ میں ’سب سے بڑا کھیل کی روح کے خلاف اقدام‘ کہا جاتا ہے۔ سن 1981 میں میلبرن کرکٹ گراؤنڈ پر نیوزی لینڈ کے خلاف آخری گیند ’انڈر آرم‘ دیکھ کر تماشائی بھی دنگ رہ گئے۔ آسٹریلوی ٹیم نے اس میچ میں کامیابی تو حاصل کرلی لیکن ’فیئر پلے‘ کا مرتبہ برقرار نہ رکھ پائی۔
تصویر: Getty Images/A. Murrell
1932: جب ’باڈی لائن باؤلنگ‘ ’سفارتی تنازعے‘ کا سبب بنی
سن 1932 میں برطانوی کرکٹ ٹیم کا دورہ آسٹریلیا برطانوی کپتان ڈگلس جارڈین کی ’باڈی لائن باؤلنگ‘ منصوبے کی وجہ سے مشہور ہے۔ برطانوی گیند باز مسلسل آسٹریلوی بلے بازوں کے جسم کی سمت میں ’شارٹ پچ‘ گیند پھینک رہے تھے۔ برطانوی فاسٹ باؤلر ہیرالڈ لارووڈ کے مطابق یہ منصوبہ سر ڈان بریڈمین کی عمدہ بلے بازی سے بچنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ تاہم یہ پلان دونوں ممالک کے درمیان ایک سفارتی تنازع کا سبب بن گیا۔
تصویر: Getty Images/Central Press
7 تصاویر1 | 7
سابق کوچ سجاد احمد کے بقول شاداب کو باؤلنگ اور بیٹنگ دونوں میں بہت دلچسپی تھی اور ایک وقت ایسا بھی آیا تھا، جب اس نے بیٹنگ کی خاطر باؤلنگ کو خیر باد کہہ دیا تھا: ’’اس موقع پر میں نے اسے مشورہ دیا تھا کہ وہ آل راؤنڈر بننے کے بارے میں سوچے کیونکہ اس طرح اس کے پاس اعلٰی درجے کی کرکٹ کھیلنے کے بہتر مواقع ہوں گے اور پھر اس نے ایسا ہی کیا۔‘‘
اپنی بے پناہ کامیابیوں کے باوجود شاداب کے دوستوں اور ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ ابھی بھی پہلے کی طرح تربیت پر توجہ دیتا ہے۔
سابق کوچ کے بقول ’’شاداب خان اپنا ماضی یا بنیاد نہیں بھولا ہے۔ جب وہ شہر میں ہوتا ہے تو صدیق اکبر کلب ضرور آتا ہے۔ یہ اس کی پہلی ٹیم تھی۔ اب اس کلب کے سارے اخراجات شاداب برداشت کرتا ہے۔‘‘