شادیاں اور شرح پیدائش کم، جنازے زیادہ: اٹلی کا نیا المیہ
27 مارچ 2021
یورپی ملک اٹلی میں کورونا کی وبا کے باعث شادیوں اور شرح پیدائش میں واضح کمی ہوئی ہے جبکہ جنازے بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ اس المناک صورت حال کے نتیجے میں ملکی آبادی میں گزشتہ برس تقریباﹰ چار لاکھ کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
اشتہار
اطالوی دارالحکومت روم سے ہفتہ ستائیس مارچ کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اٹلی کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں مجموعی آبادی کے تناسب سے کووڈ انیس کے باعث ہلاکتوں کی مجموعی شرح بہت زیادہ رہی ہے۔ اسی لیے اب وہاں ملکی آبادی کو ایسی صورت حال کا سامنا ہے، جسے ماہرین 'ڈرا دینے والے حالات‘ کا نام دے رہے ہیں۔
بحیرہ روم کے کنارے واقع اس ملک میں کووڈ انیس کے باعث چند روز پہلے تک کُل ایک لاکھ سات ہزار افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ یہ یورپ کے کسی بھی ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاکتوں کی دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس وبا کے باعث اٹلی سے زیادہ ہلاکتیں اب تک صرف برطانیہ میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔
آبادی میں کمی کا تیز رفتار رجحان
اٹلی کے قومی شماریاتی ادارے نے بتایا کہ 2020ء میں یکم جنوری سے لے کر اکتیس دسمبر تک کے عرصے میں شادیوں اور بچوں کی پیدائش میں واضح کمی اور کورونا کے باعث بے تحاشا انسانی اموات کے باعث ملکی آبادی میں تین لاکھ چوراسی ہزار کی کمی ہوئی۔
آبادی میں یہ کمی اتنی زیادہ ہے کہ یہ ٹسکنی کے اطالوی علاقے کے مشہور شہر فلورنس کی کُل آبادی کے تقریباﹰ برابر بنتی ہے۔
دنیا کے سات صنعتی ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہونے والے اٹلی میں مجموعی آبادی میں کمی کا رجحان یوں تو 2015ء سے جاری ہے مگر کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران اس ملک میں اتنا جانی نقصان ہوا ہے کہ آبادی میں کمی بہت تیز رفتار ہو گئی ہے۔
اشتہار
مجموعی آبادی اب 60 ملین سے کم
اطالوی دفتر شماریات کے مطابق ان عوامل کے باعث اٹلی کی کُل آبادی بھی کم ہو کر اب 60 ملین کی نفسیاتی طور پر اہم حد سے نیچے آ گئی ہے۔ ماہرین کے مطابق ملک کی کُل آبادی اب 59.3 ملین کے قریب بنتی ہے۔
اس کے علاوہ گزشتہ برس ملک میں بچوں کی شرح پیدائش میں کمی کا ایک نیا ریکارڈ دیکھنے میں آیا۔ 2019ء میں ملک میں چار لاکھ بیس ہزار بچے پیدا ہوئے تھے۔ مگر 2020ء میں یہ تعداد 16 ہزار کی کمی کے بعد چار لاکھ چار ہزار رہ گئی۔
اطالوی پہاڑوں کی آغوش ميں ايک نئی زندگی کا آغاز
جنوبی اٹلی ميں اسپرومونٹے پہاڑی سلسلے کی آغوش ميں ايک چھوٹا سا گاؤں جو کبھی تاريکی اور خاموشی کا مرکز تھا، آج نوجوانوں کے قہقہوں سے گونج رہا ہے۔ سانت آليسيو ميں اس رونق کا سبب پناہ گزين ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
گمنامی کی طرف بڑھتا ہوا ايک انجان گاؤں
کچھ برس قبل تک سانت آليسيو کی کُل آبادی 330 افراد پر مشتمل تھی۔ ان ميں بھی اکثريت بوڑھے افراد کی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بلاکوں کی مدد سے بنی ہوئی تنگ گلياں اکثر وبيشتر خالی دکھائی ديتی تھيں اور مکانات بھی خستہ حال ہوتے جا رہے تھے۔ گاؤں کے زيادہ تر لوگ ملازمت کے بہتر مواقع کی تلاش ميں آس پاس کے بڑے شہر منتقل ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
نئے مہمان، نئی رونقيں
سن 2014 ميں سانت آليسيو کی کونسل نے قومی سطح کے ’پروٹيکشن سسٹم فار ازائلم سيکرز اينڈ ريفيوجيز‘ (SPRAR) نامی نيٹ ورک کے تحت مہاجرين کو خالی مکانات کرائے پر دينا شروع کيے۔ آٹھ مکانات کو قريب پينتيس مہاجرين کو ديا گيا اور صرف يہ ہی نہيں بلکہ ان کے ليے زبان کی تربيت، سماجی انضام کے ليے سرگرميوں، کھانے پکانے اور ڈانس کلاسز کا انتظام بھی کيا گيا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ايک منفرد منصوبہ
يہ ايک خصوصی منصوبہ ہے، جس کے تحت ان افراد کو پناہ دی جا رہی ہے، جو انتہائی نازک حالات سے درچار ہيں۔ ان ميں ماضی میں جسم فروشی کی شکار بننے والی عورتيں، ايچ آئی وی وائرس کے مريض، ذيابيطس کے مرض ميں مبتلا افراد اور چند ايسے لوگ بھی شامل ہيں جنہوں نے اپنے آبائی ملکوں ميں جنگ و جدل کے دوران کوئی گہرا صدمہ برداشت کیا ہے یا زخمی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ميئر اسٹيفانو کالابرو بھی خوش، لوگ بھی خوش
سانتا ليسيو کے ميئر اسٹيفانو کالابرو کا کہنا ہے کہ ان کا مشن رحم دلی پر مبنی ہے اور انسانی بنيادوں پر مدد کے ليے ہے ليکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے معاشی فوائد بھی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
دو طرفہ فوائد
رياست کی طرف سے ہر مہاجر کے ليے يوميہ پينتاليس يورو ديے جاتے ہيں۔ يہ رقم انہیں سہوليات فراہم کرنے پر صرف کی جاتی ہے۔ اس منصوبے کی وجہ سے سانت آليسيو ميں سولہ لوگوں کو ملازمت مل گئی ہے، جن ميں سات افراد مقامی ہيں۔ سروسز کی فراہمی کے ليے ملنے والی رقوم کی مدد سے گاؤں کا جم ( ورزش کا کلب) واپس کھول ديا گيا ہے اور اس کے علاوہ ايک چھوٹی سپر مارکيٹ اور ديگر چھوٹے چھوٹے کاروبار بھی بندش سے بچ گئے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
سانت آليسيو کے ليے نئی اميد
مقامی افراد اس پيش رفت سے خوش دکھائی ديتے ہيں۔ نواسی سالہ انتوونيو ساکا کہتے ہيں کہ وہ اپنے نئے پڑوسيوں سے مطمئن ہيں۔ ساکا کے بقول وہ اپنی زندگياں خاموشی سے گزارتے ہيں ليکن ديگر افراد کے ساتھ ان کا برتاؤ اچھا ہے اور کام کاج ميں بھی لوگوں کا ہاتھ بٹاتے ہيں۔ سيليسٹينا بوريلو کہتی ہيں کہ گاؤں خالی ہو رہا تھا اور عنقريب مکمل طور پر خالی ہو جاتا، مگر مہاجرين نے اسے دوبارہ آباد کر ديا ہے۔
یہی نہیں گزشتہ برس ملک میں سالانہ بنیادوں پر شہری اموات کی تعداد میں 2019ء کے مقابلے میں تقریباﹰ 17 فیصد اضافہ ہوا اور ایک لاکھ بارہ ہزار شہری انتقال کر گئے۔ پچھلے سال اٹلی میں سالانہ اوسط سے نصف سے بھی کم تعداد میں شادیاں ہوئی تھیں۔
ملک کے وسیع تر علاقے کورونا ریڈ زون
یورپی یونین کے رکن اس ملک میں کورونا وائرس کی وبا سے المناک حد تک زیادہ جانی نقصان گزشتہ برس فروری میں دیکھنے میں آیا تھا مگر یہ سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔ پچھلے سال فروری سے اب تک ملک میں اس وائرس کی تقریباﹰ 3.5 ملین نئی انفیکشنز ریکارڈ کی جا چکی ہیں۔
اسی لیے آج بھی اٹلی کے وسیع تر علاقے ایسے ہیں، جنہیں کورونا وائرس کے بہت زیادہ پھیلاؤ کی وجہ سے انتظامی طور پر ریڈ زون قرار دیا جا چکا ہے اور جہاں عام شہریوں کی نقل و حرکت پر ابھی تک سخت پابندیاں عائد ہیں۔
م م / ع ح (اے پی، ڈی پی اے)
’آگ کی نگری‘ اٹلی کے ايک خوب صورت خطے کی سياہ حقيقت
اٹلی کے جنوب ميں کمپانيا کا خطہ لاجواب پکوان اور اپنے شاندار ساحلوں کے ليے معروف ہے۔ تاہم اس علاقے کے لوگوں ميں سرطان اور بچوں کی اموات کی شرح بھی انتہائی اونچی ہے جو اس کے مثبت پہلوؤں پر پردہ ڈال ديتی ہے۔
تصویر: Stefano Schirato
کمپانيا پر سياہ بادل
املافی کا ساحلی علاقہ اور پومپے کے آثار قديمہ ان درجنوں مقامات ميں سے چند ايک ہی ہيں جو کمپانيا کو خاص بناتے ہيں۔ اسی علاقے سے ’پيزا‘ دنيا بھر ميں مقبول ہوا تاہم اسی علاقے کے ايک حصے کو ’موت کی تکون‘ بھی کہا جاتا ہے۔ نيپلز و کاسيرٹا نامی شہروں کے بيچ ايک علاقہ ہے جہاں لوگ کوڑے کے بيچ گزر بسر کر رہے ہيں۔ انہيں زہريلی گيسوں ميں سانس لينا پڑتا ہے اور وہاں دستياب پينے کے پانی کا معيار بھی ناقص ہے۔
تصویر: Stefano Schirato
ایک اَن دیکھا قاتل
فوٹو گرافر اسٹيفانو شيراٹو نے ان ماحولياتی مسائل کی فوٹو گرافی سن 2015 ميں شروع کی تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبليو کو بتايا، ’’يہ سانحہ تيس برس سے وہيں کا وہيں ہے اور اس کی شروعات اس وقت ہوئی تھی جب کوڑے کرکٹ کو ماحول دوست طريقے سے ٹھکانے لگانے کے اخراجات سے بچنے کے ليے بين الاقوامی کمپنيوں نے مقامی سياستدانوں کے ساتھ معاہدے طے کيے تھے۔‘‘
تصویر: Stefano Schirato
غير فطری تبديلی
پچھلی چند دہائيوں کے دوران کئی ملين ٹن کچرا وہاں پھينکا گيا، جن پر سينکڑوں مکانات اور پورے پورے ديہات کھڑے ہو گئے۔ مقامی حکام نے ايک غير قانونی لينڈ فل پر ايک کيمپ کے قيام کی اجازت بھی دے دی۔ شيراٹو کا کہنا ہے، ’’جب ميں پہلی مرتبہ وہاں گيا، تو ميں يہ ديکھ کر حيران رہ گيا کہ کس طرح کوڑ کرکٹ کے ڈھير کے پہاڑ نمودار ہو گئے جو پہلے وہاں نہیں تھيں۔‘‘
تصویر: Stefano Schirato
’غير ضروری نسل‘
فوٹو گرافر اسٹيفانو شيراٹو نے ’آگ کی نگری‘ کے عنوان تلے اپنی تحقيق ميں کئی مقامی لوگوں سے اُن کی رائے لی۔ وہ بتاتے ہيں، ’’ميں ايسے بچوں سے مل چکا ہوں جو اپنے والدين کھو چکے ہيں اور ايسے والدين سے بھی مل چکا ہوں، جو اپنے بائیس ماہ تک کے بچے کھو چکے ہيں۔‘‘ شيراٹو، انا نامی ايک لڑکی کی کہانی بيان کرتے ہوئے بتاتے ہيں کہ اس کی بچی تندرست پيدا ہوئی پر دس ماہ کی عمر ميں وہ سرطان ميں مبتلا ہو گئی۔‘‘
تصویر: Stefano Schirato
معاملے کی تہہ تک پہنچنا
شيراٹو نے روزيٹہ نامی ايک ساٹھ سالہ عورت کے بارے ميں بتايا، جسے جب پتہ چلا کہ وہ سرطان ميں مبتلا ہے، تو اس نے تحقيق شروع کی۔ اس نے پتہ چلايا کہ اس کے کئی پڑوسی بھی اسی کيفيت کا شکار ہيں۔ اس نے ہر دروازہ کھٹکھٹايا اور معومات جمع کيں۔ روزيٹہ نے يہ تمام تر معلومات ايک کتاب ميں تحرير کيں، جو بعد ازاں اس مسئلے پر سے پردہ اٹھانے ميں کافی اہم ثابت ہوئی۔
تصویر: Stefano Schirato
بچنے کی صلاحيت
اس خطے کے ماحولياتی اور طبی مسائل پرشيدہ نہيں ہيں ليکن اٹلی کے نيشنل انسٹيٹيوٹ آف ہيلتھ نہ پہلی مرتبہ دو برس قبل ان مسائل کے متاثرہ علاقوں ميں موجود کچرے کے ڈھيروں سے تعلق کو تسليم کيا۔
تصویر: Stefano Schirato
مقامی لوگ علاقہ چھوڑنا بھی نہيں چاہتے
آلودگی اور کوڑے کرکٹ کے باوجود ’موت کی تکون‘ کے علاقے کے رہائشی اپنے مکانات نہيں چھوڑنا چاہتے۔ شيراٹو کے بقول مقامی لوگوں کو ملک کے ديگر حصوں ميں ملازمت ملنا مشکل ہے۔ اس کے علاوہ، جو لوگ وہاں پيدا ہوئے اور اپنی پوری پوری زندگياں وہيں گزار ديں، وہ اپنا علاقہ نہيں چھوڑنا چاہتے۔
تصویر: Stefano Schirato
کم علمی کوئی زبردست بات نہيں
دو سال قبل کيے گئے مطالعے کے بعد يہ معاملہ اب سياسی موضوع بن چکا ہے ليکن اس کے باوجود فی الحال کوئی حل سامنے نہيں آيا۔ شيراٹو کے بقول لوگ اب مسئلے سے واقف ہيں اور انصاف چاہتے ہيں۔ اسی ليے سياستدان اب اسے نظر انداز نہيں کر سکتے۔ فوٹو گرافر کا کہنا ہے کہ علاقے کو صاف کرنا بھی تاہم ايک بڑا مسئلہ ہے۔
تصویر: Stefano Schirato
بہتر مستقبل کی اميد
اسٹيفانو شيراٹو تين برس پر مبنی اپنی تحقيق کو تصاوير کی صورت ميں جاری کر رہے ہيں۔ اس کتاب کی اشاعت کے ليے درکار رقوم (https://crowdbooks.com/projects/terra-mala) پر جمع کی جاری ہيں۔