1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شادیاں تو قائم لیکن ’بخشوائے گئے گناہ دوبارہ جرم‘ بن گئے

24 دسمبر 2018

اسپین میں کولمبیا کے شہری اور رومن کیتھولک کلیسا کے ایک ایسے جعلی پادری کا پتہ چلایا گیا ہے، جو کوئی پادری تھا ہی نہیں لیکن گزشتہ اٹھارہ برسوں سے خود کو ایک پادری کے طور پر پیش کرتے ہوئے دھوکا دہی کر رہا تھا۔

تصویر: Colourbox/Giovanni

ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ سے کرسمس کے مسیحی تہوار سے صرف ایک روز قبل پیر چوبیس دسمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق کولمبیا کا یہ جعلساز جھوٹا پادری بن کر قریب دو عشروں سے ہر طرح کے کلیسائی فرائض انجام دے رہا تھا۔

اس کے جھوٹ کا پلندہ اسپین میں رومن کیتھولک کلیسا کے ایک ایسے مذہبی انتظامی علاقے میں کھلا، جہاں وہ پادری بن کر اپنی ذمے داریاں انجام دے رہا تھا۔ اس کی جعلسازی کا پول کھل جانے کی خود مقامی کلیسائی انتظامیہ نے بھی تصدیق کر دی ہے۔

تصویر: Imago

کیتھولک کلیسا اور اس کے پیروکاروں کو 18 سال تک دھوکا دیتے رہنے والے اس شخص کا نام میگوئل ایجنل ایبارا بتایا گیا ہے، جو تھا تو جعلساز لیکن ایک پادری کے طور پر کلیسا میں نہ صرف کیتھولک مسیحیوں کی شادیاں کرواتا رہا تھا بلکہ رومن کیتھولک مذہبی روایت کے مطابق اپنے گناہوں پر شرمندہ افراد کے ’اعترافات جرم‘ بھی سنتا رہا تھا۔

اس بارے میں اسپین میں کادیس اور سیوتا کے بشپ کے انتظامی علاقے کی ایک خاتون ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ایبارا اکتوبر 2017ء میں کولمبیا سے اسپین آیا تھا اور وہ جنوبی اسپین کے علاقے اندلس میں میدینہ سیدونیا نامی اس گاؤں کے رومن کیتھولک چرچ کا مقامی سربراہ تھا، جس کی آبادی قریب 11 ہزار ہے۔‘‘

ترجمان کے مطابق یہ شخص پچھلے 18 برسوں سے دھوکا دہی کا مرتکب ہوتے ہوئے ایک پادری بنا ہوا تھا اور اسی ماہ کے وسط میں تفصیلی چھان بین کے بعد کولمبیا میں کلیسائی حکام نے اپنے ہسپانوی ہم منصب اہلکاروں کو باقاعدہ طور پر یہ اطلاع دے دی تھی کہ ایبارا کی کلیسائی تعلیم و تربیت اور پادری کے عہدے پر فائز ہو سکنے کے لیے لازمی طور پر درکار دستاویزات اور اسناد جعلی تھیں۔

اس دھوکا دہی کے انکشاف کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہسپانوی کیتھولک کلیسا نے اب ایبارا کو واپس کولمبیا جانے کا حکم دے دیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے ان شادیوں کا اور اعتراف گناہ کے ان واقعات کا کیا بنے گا، جو کلیسائی رسوم کے طور پر اس نقلی پادری کی قیادت میں انجام پائے تھے؟

اس بارے میں کادیس اور سیوتا کے بشپ کے انتظامی علاقے کی خاتون ترجمان نے کہا، ’’وہ شادیاں جو میگوئل ایبارا نے کروائیں اور وہ بپتسمے جو اس جعلی پادری نے دیے، وہ تو مذہبی طور پر مؤثر رہیں گے، لیکن یہ بات کلیسائی پیروکاروں کے ’اعترافات گناہ‘ سننے کے ان واقعات کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی، جن میں ایبارا نے حصہ لیا تھا۔‘‘

ترجمان نے مزید کہا، ’’حالانکہ جن باعقیدہ افراد کو ایبارا نے دھوکا دیا، ان پر خدا کی رحمت تو نازل ہوئی ہو گی، لیکن ایبارا کی جعلسازی کی وجہ سے ایک کلیسائی رسم کے طور پر یہ اعترافات مؤثر نہیں ہوں گے۔‘‘

م م / ع ت / اے ایف پی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں