1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
موسیقیایشیا

شادیوں سے متعلق لوک ادب، سسرال دشمنی یا محض مزاح

رابعہ الرَباء
29 جون 2021

شادی بیاہ کے حوالے سے ہمارے زیادہ تر لوک گیت اور ادب میکے کی شان اور سسرال والوں کی ’بے عزتی‘ پر مبنی ہے۔ یعنی ہمارے معاشرے میں لوک ادب نے شادی کو بھی ایک ’جنگی کارروائی‘ بنا رکھا ہے۔

DW Urdu Blogerin Rabia Al raba
تصویر: privat

''جھوٹ بولے کوا کاٹے،کالے کوے سے ڈریو

میں میکے چلی جاوں گی تم دیکھتے رہیو‘‘

''بنو تیرے ابا کی اونچی حویلی، بنو میں ڈھونڈتا چلا آیا‘‘

پنجابی کا ایک لوک گیت 'کالا ڈوریا‘ بہت ہی مشہور ہے۔ ویسے تو یہ سارا گیت ہی سسرال کے خلاف ہے لیکن اس کی ایک بولی کا مفہوم کچھ یوں ہے، ''یہ قمیضیں ملتان سے آئی ہیں، اپنی ہی ماں ہے، جو سارے شوق پورے کرتی ہے، ساس تو غیر ہوتی ہے، جو گلے سے بھی قمیض اتروا لیتی ہے۔‘‘

لوک ادب میں ایسی سینکڑوں مثالیں مل جائیں گی، جہاں میکے کی شان میں قصیدے پڑھے گئے ہیں اور سسرال والوں کی جہاں تک ممکن ہو برائی کی گئی ہے۔ کیا یہ لڑکی اور اس کے سسرال والوں  کے ساتھ پہلے سے ہی ظلم نہیں ہے؟ کیا ان گیتوں کا لڑکی کی ذہنی نشوونما پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا؟

کسی حد تک دادا، چچا، تایا وراثت اور بچوں کے نان نفقے کے ذمہ دار ہیں لیکن ماموں کی طرح چاند نہیں بن سکتے۔ پھوپھو 'پھپھے کٹن‘ ہے لیکن خالہ آدھی گھر والی ہے۔

ایک اور پنجابی گیت ہے، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ''تمہیں شرم نہیں ہے۔ ہماری لڑکی تو اونچی ذات پات کی ہے۔ ہمیں تم سے شادی کرنے کے لیے ذات بدلنی پڑی، یہاں تو لڑکے کا باپ بھی کانا ہے۔‘‘ اس طرح کے مصرعے بلکہ پورے پورے گیت ڈھولک کی تھاپ پر گائے جاتے ہیں۔ اب تو شادی کی تقریبات بس تین چار روزہ ہوتی ہیں لیکن ایک دور تھا کہ گاؤں والے، محلے دار اور رشتے دار شادی سے کئی ہفتے قبل ہی گھروں میں آ جایا کرتے تھے اور  ڈھولک کے ساتھ ساتھ لوک گیت ہوتے تھے۔ ایک طرف یہ لڑکی کی دلجوئی اور نئے گھر جانے کی تیاری ہوتی ہے لیکن کیا اس طرح کے گیتوں سے دلہن کو محبت کی طاقت سیکھانے کی بجائے 'اسلحہ بردار فوجی‘ نہیں بنا دیا جاتا؟ کیا ان گیتوں اور بولیوں کے اثرات دلہن کی آئندہ زندگی پر نہیں پڑتے ہوں گے؟

اس کے برعکس میکے کی شان میں جگہ جگہ قصیدے ملتے ہیں، اس حوالے سے بھی ان گنت گیت ہیں۔

’’اماں میرے بابل کو بھیجو ری کہ ساون آیا، اماں میرے بھیا کو بھیجو ری کہ ساون آیا‘‘

یعنی باغوں میں جھولے کیا صرف میکے میں ہی ڈالے جا سکتے ہیں؟ ممکن ہے سسرال کا لان یا باغ  میکے سے اچھا ہو اور اس میں موتیا چڑھی بیلوں والے جھولے ہوں یا ڈالے جا سکتے ہو۔ ممکن ہے وہاں کا ساون پیا کے سنگ زیادہ حسین ہو۔

ساس اور نند تو ویسے ہی استعارہ دشمناں ہیں۔

اردو کا ایک گیت ہے، ''چھم چھم پوری تلی چلی، بھیا کھائیں بھابھی کھائیں،کھائے گود کا منا، ساس نگوڑی جل جل جائے، ہائے نندی نظر لگائے‘‘

ایسے ہی ایک گیت ہے،''جا ری بابل کی ٹھنڈی ہوا، میرے بابل کی ٹھنڈی ہوا، اب نہ مجھ کو لوری سنا‘‘

مسئلہ یہ ہے کہ ہم کیوں ایسے گیتوں کی تکرار نہیں کرتے، جس میں سسرال کی بھی شان ہو۔ کیوں ہم اپنی بیٹیوں کے ذہنوں میں سسرال دشمن مواد ڈال رہے ہیں؟ کیوں ہم 'دھمکی آمیز‘  گیت گاتے ہیں، ''میں میکے چلی جاؤں گی، تم دیکھتے رہیو!‘‘

’’کالا ڈوریا‘‘  لوک گیت میں چھوٹا دیور بھابھی سے لڑتا ہے، یہ میٹھی بولیوں والا گیت ہے مگر شادی کے وقت لڑائی کی بات کیوں؟

’’بلے بلے‘‘ جیسے پنجابی ٹپوں میں تو سسرال  کے خاندان بھر کو سانپوں کا آستانہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ یعنی ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے لوک ادب نے شادی کو 'جنگی کارروائی‘ بنا رکھا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں