شادی کا لفظی مطلب ہے خوشی۔ کوئی شک نہیں کہ خوشی اور محبت ہی شادی کی بنیاد ہوتی ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے کہ ہمارے معاشرے میں شادی کے بعد بہت سی خواتین کو خوشی ملتی ہی نہیں؟ چلیں، آج اس کی وجوہات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
اشتہار
سماجی اعتبار سے شادی ایک ایسا معاہدہ ہے، جس میں باہمی رضامندی کے ساتھ دو افراد ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ عمومی طور پر اس فیصلے کی بنیاد محبت، خوشی، ذہنی ہم آہنگی اور برابری کی بنیاد پہ رکھی جاتی ہے۔
ہمارے ہاں مگر معاملہ کچھ اور ہے۔ ڈی ڈبلیو ہی کی ایک خبر کے مطابق پاکستان میں اکیس فیصد لڑکیوں کی شادی اٹھارہ سال کی عمر سے قبل ہی کر دی جاتی ہے جبکہ تیرہ فیصد بچیاں تو اپنی عمر کے چودہویں سال میں ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔
اخبارات اٹھا لیجیے، ہر دوسرے روز آپ کو ہمارے ملک میں ہونے والی کسی ایسی شادی کے بارے میں خبر ملے گی، جس میں خاص کر لڑکی اور بعض اوقات لڑکے اور لڑکی دونوں کی رضامندی شامل نہیں ہو گی۔
کبھی شادی کی غرض سے تھر کی ایک ہندو لڑکی کے اسلام قبول کرنے کی خبر ملے گی تو کبھی کم عمر لڑکی کے اس سے دوگنا عمر کے مرد سے شادی کی خبر ہو گی۔ کبھی کسی جرگے کے فیصلے پر لڑکے کو سزا یہ دی جائے گی کہ اس کی بہن کی شادی فلاں لڑکے سے کر دی جائے۔ یہ خبر بھی مرچ مصالحے کی ساتھ لگائی جاتی ہے کہ لڑکی کی شادی کے لیے والدین کے مجوزہ رشتے پر رضامند نہ ہونے پر اسے قتل کر دیا گیا۔
اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر ہی دیکھ لیں، آپ نے بہت سی شادیاں ہوتی دیکھی ہوں گی۔ رشتہ ہونے سے لے کر شادی ہونے تک ، سارے مراحل میں، جس بات کی سب سے کم اہمیت ہوتی ہے، وہ ہے لڑکا اور لڑکی کی رضامندی۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ بالخصوص جنوبی ایشیائی ممالک میں یہ مسائل ہر جا نظر آتے ہیں۔
پہلی کوشش ہوگی کہ شادی اپنے ہی خاندان میں ہوجائے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر ذات برادری کا دھیان رکھنا ہے۔ مالی آسودگی بھی دیکھنا ہے، مسلک کو لازما پرکھنا ہے اور مذہب سے باہر شادی کا تو تصور ہی مت کیجیے۔ پھر شادی کی تیاریوں میں ہونے والی گفتگو بہت دلچسپ ہوتی ہے۔ کوئی حق مہر کے بارے میں رائے دے رہا ہوتا ہے تو کوئی جہیز کا ذکر چھیڑے بیٹھا ہے۔
بھارت کے امراء میں بھی کم عمری کی شادیوں کا رواج
بھارت میں ہر سال لاکھوں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے۔ غیر قانونی ہونے کے باوجود لڑکیوں کی نصف آبادی کو بچپنے میں ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
برا تصور نہیں کیا جاتا
سماجی مبصرین کی رائے میں بھارتی معاشرے میں کم عمری کی شادی کو برا تصور نہیں کیا جاتا اور قانونی طور پر جرم کے زمرے میں آنے والے اس فعل کو کم ہی رپورٹ کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
حکومتی پالیسی ناکام
غیر سرکاری تنظیم ’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادیوں سے متعلق حکومت کی پالیسی ملک میں چھوٹی عمر میں شادیوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ قانونی اقدامات بھارتی معاشرے میں ایسی ثقاتی روایات کے اثرات کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جو کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تصویر: AP
لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے کم
تھامسن روئٹرز فاؤندیشن کی رپورٹ کے مطابق لڑکوں کی شادی بھی چھوٹی عمر میں کرنے کے واقعات عام ہیں لیکن ان کی تعداد لڑکیوں سے کافی کم ہے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر میں لڑکی کی شادی کر دینے کا مطلب ہے کہ اسے اسکول چھوڑنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ایسی لڑکیوں کو گھریلو تشدد، جنسی استحصال اور بچے کو جنم دیتے ہوئے موت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
بھارت کے امراء میں بھی کم عمر کی شادیاں عام
اگرچہ بھارت میں تعلیم کے فقدان اور غربت کو کم عمری کی شادیوں کی وجہ بتایا جاتا ہے لیکن امیر گھرانوں میں بھی چھوٹی عمر میں لڑکیوں کی شادیوں کا رواج عام ہے۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں ہر چار میں سے ایک لڑکی اور شہروں میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کر دی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
کم عمر کی شادیوں کو روکنے کے لیے اقدامات
’’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو سوشل میڈیا، اسکولوں کے نصاب اور دیگر ذرائع کے ذریعے کم عمر کی شادی کے بھارتی قانون اور اس سے پیدا پونے والے سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی پھیلانی چاہیے۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو یہ قانونی حق دیا جائے کہ وہ کم عمر بچوں کی شادیوں کو روک سکیں۔
تصویر: AP
کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ
حال ہی میں کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔ حکومت ایسی لڑکی کے اکاؤنٹ میں کچھ پیسے منتقل کرتی ہے جو اٹھارہ سال کی عمر میں تعلیم حاصل کر رہی ہو اور اس کی شادی نہ ہوئی ہو۔ راجھستان میں شادیوں کے ٹینٹ فراہم کرنے والی کمپنی نے بھی کم عمری کی درجنوں شادیوں کو رکوایا ہے۔
تصویر: AP
6 تصاویر1 | 6
کسی کو شادی بیاہ کی رسومات میں دلچسپی ہے تو کوئی کھانے کا مینیو طے کرنے میں پیش پیش ہے۔ کسی کو یہ فکر ہے کہ بارات کا استقبال ڈھنگ سے کیا جائے تو کوئی مہمانوں کی فہرستیں بنانے میں مگن ہے۔
تو کیا شادی بس انہی چیزوں کا نام ہے؟ کیا یہ لوازمات شادی کے کامیاب ہونے کی علامت ہیں ؟ کیا ان سب کارروائیوں کے بعد آسودہ زندگی کی ضمانت دی جا سکتی ہے؟ بالکل نہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ آسودگی صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب محبت، خوشی اور باہمی رضامندی و احترام کے ساتھ یہ معاہدہ طے کیا جائے اور اس بندھن کو بغیر کسی دباؤ کے ختم کرنا بھی شادی شدہ جوڑے کے اختیار میں ہو۔
کم سے کم کی مثال بھی دی جائے تو ہمارے پاکستانی معاشرے کی تقریبا ستر سالہ روایت ہمارے سامنے ہیں۔ ہمارے ہاں شادی خاص طور پر عورت کے لیے شاذونادر ہی آسودگی کا باعث بنتی ہے۔ عام مشاہدے کے مطابق خواتین کو بس گھر کا کام کرنا ہوتا ہے اور بچے اور بالخصوص لڑکے پیدا کرنا ہوتا ہے۔
یہ عالم تو دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے کہ لوگ شعوری یا لاشعوری طور پر خواتین کو مردوں سے کم تر سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان میں زیادہ تر خواتین کا بھی یہی خیال ہے۔ شادی کے ان مسائل کی بنیادی جڑ تو رضامندی کا نہ ہونا ہے لیکن مسائل زیادہ گھمبیر اس وقت ہوجاتے ہیں جب معاشی مسائل بھی جنم لے لیتے ہیں۔
سوچیے ماں باپ لڑکا پیدا ہونے کی خواہش آخر کیوں کرتے ہیں؟ کیوں طلاق یافتہ عورت کو ترحم کی نظر سے دیکھا جاتا ہے؟ لڑکی کو دبے لفظوں یہ نصیحت کیوں کی جاتی ہے کہ جس گھر میں تمہاری ڈولی گئی ہے وہاں سے تمہارا جنازہ اٹھنا چاہیے۔
اس ساری صورتحال کا جو نتیجہ نکلتا ہے وہ مختلف واقعات کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے، کبھی کسی بہو کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے تو کہیں عورت کو گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملازم پیشہ عورت پر نوکری چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے اور اسے گھر کے کاموں کے لیے پابند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حتیٰ کہ شادی کے فوراً بعد بچہ پیدا کرنے کی تاکید بھی اسی غرض کی جاتی ہے کہ عورت علیحدگی کے بارے میں سوچ بھی نہ سکے۔ کورونا کے حالیہ ایام اس لحاظ سے بہت کچھ سکھا رہے ہیں۔ شادی شدہ جوڑوں کو پہلے سے زیادہ وقت ایک ساتھ گزارنے کا موقع مل رہا ہے اور بے شمار ایسے گھرانے ہیں، جہاں عورتوں پر گھریلو تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان حالات میں جاری رہنے والی شادیاں کیا واقعی کامیاب شادیاں کہلانے کے قابل ہیں ؟ کیا ایسی سب شادیاں جبری نہیں؟
کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم اپنے معاشرے کو ان خطوط پر استوار کرنے کی کوشش کریں، جہاں عورت اور مرد برابری کی سطح پر زندگی گزار سکیں اور اپنی زندگی کے فیصلے خود کرسکیں؟ تاکہ روایات سے چھٹکارا ملے اور لوگ آزادی کا سانس لے سکیں۔
جنوبی ایشیا میں کم عمری کی شادیاں ایک ’وبا‘
جنوبی ایشیا میں کم عمری میں بچیوں کی شادیاں کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے اور بنگلہ دیش اس فہرست میں اول نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
شادی کی کم از کم عمر میں کمی کی تجویز
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں نابالغ لڑکیوں کی شادیوں کو ایک ’وبا‘ قرار دیتے ہوئے بنگلہ دیشی حکومت پر اس مسئلے پر فوری قابو پانے کے لیے زور دیا ہے۔ اس دوران اس تنظیم نے ڈھاکہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُس تجویز کو بھی مسترد کر دے، جس میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کو اٹھارہ سے کم کر کے سولہ کرنے کا کہا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
اپنی پندرہویں سالگرہ سے پہلے
بنگلہ دیش میں تقریباً تیس فیصد لڑکیوں کو ان کی پندرہویں سالگرہ سے پہلے ہی بیاہ دیا جاتا ہے۔’’ اس سے پہلے کے سیلاب گھر کو بہا لے جائے شادی کر دی جائے‘‘۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی یہ رپورٹ ان میں سے چند لڑکیوں سے بات چیت کر کے مرتب کی ہے، جن کی کم عمری میں شادی کر دی گئی تھی۔ بنگلہ دیش میں قانونی طور پر ایسی شادیاں غیر قانونی ہیں تاہم رشوت دے کر پیدائش کی دستاویز کو باآسانی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
غربت مجبوری کا نام
بنگلہ دیش میں تواتر سے آنے والی قدرتی آفات کی وجہ سے بہت سے شہری غربت کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ غربت بھی چائلڈ میرج کی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ بہت سے خاندانوں میں لڑکیوں کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے یقین دلایا تھا کہ 2021ء تک پندرہ سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادیوں پر قابو پا لیا جائے گا جبکہ 2041 ء تک اس ملک سے چائلڈ میرج ختم کر دی جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
جنسی اور جسمانی تشدد
کم عمر بچیوں کو شادی کے بعد اُن کے شوہروں کی جانب سے جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے بھی واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں بچیوں کو دس اور گیارہ سال کی عمر میں ہی بیاہ دیا گیا ہے۔ طبی حوالے سے اِن بچیوں کا جسم ابھی اتنا طاقت ور نہیں ہوتا کہ وہ جنسی روابط قائم کر سکیں یا کسی بچے کو جنم دے سکیں۔ اس طرح زیادہ تر لڑکیاں صحت کے سنگین مسائل کا شکار بھی ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/M. Asad
یہ جنوبی ایشیا کا مسئلہ ہے
یہ مسئلہ صرف بنگلہ دیش تک ہی محدود نہیں ہے۔ کم عمری میں زبردستی شادیاں کرانے کا رجحان پورے جنوبی ایشیا میں پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگلی دہائی کے دوران دنیا بھر میں تقریباً 140 ملین لڑکیوں کی اٹھارہ سال سے کم میں شادی کر دی جائے گی اور ان میں سے 40 فیصد شادیاں جنوبی ایشیا میں ہوں گی۔
تصویر: DW/P.M.Tewari
روایات بمقابلہ قانون
پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا اور نیپال میں کم عمری میں شادی کرنا خلاف قانون ہے۔ لیکن زمینی حقائق ایک مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2000ء اور 2010ء کے دوران 20 سے 24 سال کی درمیانی عمر کی تقریباً پچیس ملیین لڑکیاں ایسی تھیں، جن کی شادی اس وقت کر دی گئی تھی، جب وہ ابھی اٹھارہ سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Hatvalne
رویے میں تبدیلی
جنوبی ایشیا کے لیے یونیسف کے نائب ڈائریکٹر اسٹیفن ایڈکسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سلسلے میں لازمی طور پر مختلف سطح پر بات چیت کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ معاشرے کی سوچ تبدیل کرنے کے لیے کم عمری میں شادی، زچگی کے دوران اموات اور صنفی تعصب کے نقصانات کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا جانا چاہیے۔