بوقت شادی لڑکیوں کا کنوارپن کا اقرار غیر ضروری، عدالتی فیصلہ
27 اگست 2019
بنگلہ دیش کی اعلیٰ ترین عدالت کے ایک فیصلے کے مطابق ملکی خواتین کے لیے لازمی نہیں ہے کہ وہ اپنی شادی کی قانونی دستاویزات میں یہ اعتراف بھی کریں کہ وہ کنواری ہیں۔ اب حکومت کو شادی سے متعلق قوانین میں ترامیم کرنا ہوں گی۔
تصویر: picture-alliance
اشتہار
اس بہت متنازعہ ہو جانے والے موضوع پر جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں کم از کم بھی پانچ برسوں سے ایک قانونی جنگ جاری تھی، جس میں ایک فریق بنگلہ دیش میں حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی ایک نمایاں تنظیم تھی، جس کا موقف تھا کہ خواتین کی نجی زندگی کی تفصیلات کا تحفظ کرتے ہوئے انہیں شادی کی قانونی دستاویزات میں ایسی تفصیلات لکھے جانے کے وقت پیش آنے والی ممکنہ شرمندگی سے بچایا جانا چاہیے۔
بنگلہ دیش اگرچہ ایک کثیرالمذہبی معاشرہ ہے لیکن وہاں کی آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ مسلمانوں سے متعلق ازدواجی قوانین کے تحت وہاں اب تک کسی بھی لڑکی یا خاتون سے اس کی شادی کے وقت پوچھا جاتا ہے کہ وہ بتائے کہ آیا وہ کنواری ہے۔ یہ بات بعد میں اس کی شادی کی قانونی دستاویز میں بھی لکھی جاتی ہے۔
'کنواری‘ کے بجائے 'غیر شادی شدہ‘
اس فارم میں اب تک استعمال کیا جانے والا لفظ 'کماری‘ ہے، جس کا مطلب کنواری ہوتا ہے۔ دوسری صورت میں اگر کوئی خاتون مطلقہ یا بیوہ ہو تو اس کی اس قانونی حیثیت کا بھی اس دستاویز میں لکھا جانا ضروری ہوتا ہے۔
یہ فیصلہ ڈھاکا میں بنگلہ دیش ہائی کورٹ نے سنایاتصویر: DW/Harun Ur Rashid Swapan
اب لیکن بنگلہ دیشی ہائی کورٹ نے اتوار پچیس اگست کو اپنے ایک فیصلے میں کہا کہ کسی خاتون کے لیے یہ لازمی نہیں کہ وہ اعلانیہ طور پر یہ بتائے کہ وہ اپنی شادی کے وقت کنورای ہے یا نہیں۔ عدالت کے مطابق اس لفظ کی جگہ آئندہ قانونی دستاویزات میں یہ پوچھا جانا چاہیے کہ آیا کوئی خاتون اپنی شادی سے پہلے شادی شدہ تھی یا نہیں۔
مطلب آئندہ شادی کی دستاویزات میں 'کماری‘ یا 'کنواری‘ کی جگہ 'غیر شادی شدہ‘ لکھا جائے۔ اسی طرح شادی کے وقت کسی دلہا سے بھی 'کنوارہ‘ ہونے کے بجائے اب یہ پوچھا جائے گا کہ وہ غیر شادی شدہ ہے، طلاق یافتہ یا رنڈوہ۔
عدالتی حکم پر عمل درآمد کا وقت غیر واضح
اس کیس میں عدالتی فیصلے کے بعد اب تک ڈھاکا حکومت کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا اور فی الحال یہ بھی واضح نہیں کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے اس فیصلے کے بعد شادی کی دستاویزات میں جو ترامیم کی جائیں گی، وہ کب تک ممکن ہو سکیں گی اور ترمیم شدہ شادی فارم کب سے استعمال میں آ سکیں گے۔
تصویر: Getty Images/A. Joyce
یہ فیصلہ جس کیس میں سنایا گیا، اس کی سماعت 2014ء سے جاری تھی اور اس مقدمے کی محرک دو خواتین وکلاء میں سے ایک عین النہار صدیقہ کی طرف سے عدالت سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ 1974ء میں نافذ ہونے والے بنگلہ دیش مسلم میرج اینڈ ڈائیورس ایکٹ کے تحت اس فارم میں ترامیم کا حکم دے، جس کے ایک خانے کو پر کرنے کے لیے شادی کے وقت کسی بھی لڑکی یا خاتون سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ آیا وہ کنواری ہے۔
جنوبی ایشیا میں کم عمری کی شادیاں ایک ’وبا‘
جنوبی ایشیا میں کم عمری میں بچیوں کی شادیاں کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے اور بنگلہ دیش اس فہرست میں اول نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
شادی کی کم از کم عمر میں کمی کی تجویز
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں نابالغ لڑکیوں کی شادیوں کو ایک ’وبا‘ قرار دیتے ہوئے بنگلہ دیشی حکومت پر اس مسئلے پر فوری قابو پانے کے لیے زور دیا ہے۔ اس دوران اس تنظیم نے ڈھاکہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُس تجویز کو بھی مسترد کر دے، جس میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کو اٹھارہ سے کم کر کے سولہ کرنے کا کہا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
اپنی پندرہویں سالگرہ سے پہلے
بنگلہ دیش میں تقریباً تیس فیصد لڑکیوں کو ان کی پندرہویں سالگرہ سے پہلے ہی بیاہ دیا جاتا ہے۔’’ اس سے پہلے کے سیلاب گھر کو بہا لے جائے شادی کر دی جائے‘‘۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی یہ رپورٹ ان میں سے چند لڑکیوں سے بات چیت کر کے مرتب کی ہے، جن کی کم عمری میں شادی کر دی گئی تھی۔ بنگلہ دیش میں قانونی طور پر ایسی شادیاں غیر قانونی ہیں تاہم رشوت دے کر پیدائش کی دستاویز کو باآسانی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
غربت مجبوری کا نام
بنگلہ دیش میں تواتر سے آنے والی قدرتی آفات کی وجہ سے بہت سے شہری غربت کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ غربت بھی چائلڈ میرج کی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ بہت سے خاندانوں میں لڑکیوں کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے یقین دلایا تھا کہ 2021ء تک پندرہ سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادیوں پر قابو پا لیا جائے گا جبکہ 2041 ء تک اس ملک سے چائلڈ میرج ختم کر دی جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
جنسی اور جسمانی تشدد
کم عمر بچیوں کو شادی کے بعد اُن کے شوہروں کی جانب سے جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے بھی واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں بچیوں کو دس اور گیارہ سال کی عمر میں ہی بیاہ دیا گیا ہے۔ طبی حوالے سے اِن بچیوں کا جسم ابھی اتنا طاقت ور نہیں ہوتا کہ وہ جنسی روابط قائم کر سکیں یا کسی بچے کو جنم دے سکیں۔ اس طرح زیادہ تر لڑکیاں صحت کے سنگین مسائل کا شکار بھی ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/M. Asad
یہ جنوبی ایشیا کا مسئلہ ہے
یہ مسئلہ صرف بنگلہ دیش تک ہی محدود نہیں ہے۔ کم عمری میں زبردستی شادیاں کرانے کا رجحان پورے جنوبی ایشیا میں پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگلی دہائی کے دوران دنیا بھر میں تقریباً 140 ملین لڑکیوں کی اٹھارہ سال سے کم میں شادی کر دی جائے گی اور ان میں سے 40 فیصد شادیاں جنوبی ایشیا میں ہوں گی۔
تصویر: DW/P.M.Tewari
روایات بمقابلہ قانون
پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا اور نیپال میں کم عمری میں شادی کرنا خلاف قانون ہے۔ لیکن زمینی حقائق ایک مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2000ء اور 2010ء کے دوران 20 سے 24 سال کی درمیانی عمر کی تقریباً پچیس ملیین لڑکیاں ایسی تھیں، جن کی شادی اس وقت کر دی گئی تھی، جب وہ ابھی اٹھارہ سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Hatvalne
رویے میں تبدیلی
جنوبی ایشیا کے لیے یونیسف کے نائب ڈائریکٹر اسٹیفن ایڈکسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سلسلے میں لازمی طور پر مختلف سطح پر بات چیت کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ معاشرے کی سوچ تبدیل کرنے کے لیے کم عمری میں شادی، زچگی کے دوران اموات اور صنفی تعصب کے نقصانات کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا جانا چاہیے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
7 تصاویر1 | 7
حقوق نسواں کی تنظیم کا موقف
اس مقدمے میں عین النہار صدیقہ جس تنظیم کی نمائندگی کر رہی تھیں، اس کا نام بنگلہ دیش لیگل ایڈ اینڈ سروسز ٹرسٹ (BLAST) ہے۔ اس تنظیم کی طرف سے کہا گیا ہے، ''اس عدالتی حکم سے ہمیں کچھ حوصلہ ملا ہے کہ ہمیں اپنی جنگ جاری رکھنا ہو گی، تاکہ مستقبل میں بھی خواتین کے لیے زیادہ بہتر حالات کو یقینی بنانے کے لیے ضروری تبدیلیاں لائی جا سکیں۔‘‘
ڈھاکا میں مسلمانوں کی شادیاں رجسٹر کرنے والے ایک رجسٹرار محمد علی اکبر سرکار نے نیوز ایجنسی تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا، ''تمام رجسٹراروں کو ابھی اس وقت تک انتظار کرنا ہو گا، جب تک کہ وزارت قانون اور انصاف کی طرف سے انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ شادیوں کے متعلقہ فارموں میں عدالتی حکم کے مطابق ترامیم کر دی گئی ہیں۔‘‘
حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی بنگلہ دیشی تنظیموں کے مطابق عدالت عالیہ کے اس فیصلے سے کسی عورت کی شادی کو اس کے جسمانی طور پر کنوارے ہونے سے علیحدہ کر دیا گیا ہے کیونکہ کنوارہ ہونا یا نہ ہونا کسی بھی عورت کا نجی معاملہ ہوتا ہے اور قانونی طو پر شادی کے وقت اس جسمانی کنوار پن کے بجائے یہ بات زیادہ اہم ہوتی ہے کہ آیا کوئی خاتون پہلے سے باقاعدہ شادی شدہ تھی یا نہیں۔
م م / ع ا / تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن
روم میں بنگلہ دیشی خواتین کا دقیانوسی صنفی روایات کو چیلنج
یورپ میں اطالوی دارالحکومت روم ایک بڑی بنگلہ دیشی آبادی کا میزبان شہر ہے، جس میں خواتین کا تناسب تیس فیصد ہے۔ بظاہر بنگلہ دیشی تہذیب مرد کے گرد گھومتی ہے لیکن روم میں یہ صورت حال الٹ کر رہ گئی ہے۔
تصویر: DW/V. Muscella
ایک ابھرتی ہوئی برادری
اطالوی وزارت داخلہ کے مطابق روم میں چالیس ہزار بنگلہ دیشی شہری آباد ہیں۔ ان میں سے بیشتر روم شہر کی ایک مشرقی نواحی بستی ٹور پگناٹارا میں رہتے ہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
’کام عورت کے لیے بہتر ہے‘
چھیالیس برس کی لیلیٰ روایتی ملبوسات کی ایک دوکان کی مالکہ ہیں۔ وہ خواتین کی ایک تنظیم (مہیلا سماج کولان سومیتی) کی صدر بھی ہیں۔ لیلیٰ کے مطابق بعض بنگلہ دیشی شوہر خواتین کے اپنا کوئی کاروبار کرنے کو پسند نہیں کرتے۔
تصویر: DW/V. Muscella
گھسی پٹی روایات سے نکلتے ہوئے
29 برس کی سنجیدہ بھی ایک ثقافتی ثالث ہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے اٹلی آئی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اٹلی پہنچنے کے بعد انہوں نے حجاب پہننے کا فیصلہ کیا۔ سنجیدہ کے مطابق چند بار انہیں امتیازی رویوں کا سامنا ہوا لیکن انہوں نے اپنے خاندان کی پرورش اسی ملک میں کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ بطور ایک ثقافتی ثالث گھریلوں خواتین سے ملاقاتوں میں انہیں اطالوی زبان کے کورسز میں حصہ لینے کی ترغیب دیتی ہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
تعلیم بھی حقوق کے حصول ہی کا حصہ
بیس سالہ نائر روم ہی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ لا اسپینزا یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ نائر کے مطابق وہ بنگلہ دیشی اور اطالوی دونوں تہذیبوں کی حامل ہیں اور تعلیم کو زندگی کا ایک انتہائی اہم پہلو قرار دیتی ہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
بنگلہ دیشی روایات بھی روم پہنچ گئیں
چھیالیس سالہ سلطانہ چھبیس برس قبل اٹلی پہنچی تھیں۔ انہوں نے روایتی فیش کا اپنا ایک بوتیک نواحی علاقے ٹور پگناٹارا میں کھولا۔ سلطانہ کے مطابق اٹلی میں مقیم بنگلہ دیشی خواتین اب گھروں سے باہر نکل کر عملی زندگی کا حصہ بننے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
دو مختلف تہذیبوں کے درمیان پُل
صائمہ پچاس برس کی ہیں۔ وہ ہسپتالوں، اسکولوں اور سرکاری دفاتر میں ایک ثقافتی ثاللث کے طور پر کام کرتی ہیں۔۔ ان کا خیال ہے کہ اٹلی میں وہ بنگلہ دیشی تہذیب کے چند رنگ کھو تو چکی ہیں لیکن ساتھ ہی وہ کچھ نئے ثقافتی رنگ سمیٹنے میں بھی کامیاب رہیں۔
تصویر: DW/V. Muscella
ایک نئی نسل
ساحلہ اٹھائیس برس کی ہیں، وہ روم میں پیدا ہوئیں اور اسی شہر میں پلی بڑھیں۔ وہ یہ پسند نہیں کرتیں کہ اُن سے پوچھا جائے کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں یا اطالوی۔ ساحلہ کا کہنا ہے کہ اطالوی خواتین کی طرح وہ بھی کھلے ذہن کی مالک ہیں لیکن وہ ایک بنگلہ دیشی بھی ہیں۔ ساحلہ کے مطابق اٹلی میں پیدا ہونے والی بنگلہ دیشیوں کی دوسری نسل زیادہ بہتر محسوس کرے گی۔
تصویر: DW/V. Muscella
ثقافتوں کا انضمام
بنگلہ دیش کی مجموعی آبادی میں نوے فیصد مسلمان ہیں جبکہ دس فیصد کے قریب ہندو ہیں۔ ایک اطالوی محقق کاتیوسچیا کارنا کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی آبادی میں ہر شخص ایک منفرد پس منظر کا حامل ہے۔