شارلی ایبدو کا ایک سال: ریلی کی یاد میں ریلی
10 جنوری 2016یہ ریلی گیارہ جنوری 2015ء کو پیرس میں نکالی جانے والی اُس ریلی کا عشرِ عشیر بھی نہیں تھی، جس میں ایک سال پہلے پندرہ لاکھ سے زائد افراد شریک ہوئے تھے اور طنزیہ اور مزاحیہ تحریریں اور خاکے شائع کرنے والے جریدے ’شارلی ایبدو‘ کے ساتھ ساتھ ایک یہودی سُپر مارکیٹ پر بھی ہونے والے حملے کے بعد یک جہتی کا اظہار کیا تھا۔
اتوار کا اجتماع پیرس کے ری پبلک اسکوائر میں منعقد ہوا، جہاں ایک سادہ سا اسٹیج بنایا گیا تھا اور ایک یادگار تھی، جو فرانس کے سرخ، سفید اور نیلے پرچم میں لپٹی ہوئی تھی۔ وہاں تک جانے سے پہلے شرکاء کی اچھی طرح سے تلاشی لی جا رہی تھی۔
اس موقع پر صدر فرانسوا اولاند نے شاہ بلوط کے ایک درخت کے قریب مسلمان انتہا پسندوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں مرنے اور زخمی ہونے والوں کی یاد میں ایک تختی کی نقاب کُشائی کی۔ گزشتہ سال اس حوالے سے فرانس کے لیے بدترین سال رہا، جس کی ابتدا سات جنوری 2015ء کو ’شارلی ایبدو‘ کے دفتر پر حملے سے ہوئی تھی۔ اس موقع پر راک موسیقی کے مشہور فنکار جَونی ہالیڈے نے ایک مختصر گیت بھی گایا جبکہ ساتھ ساتھ فوجی بینڈ بھی مخصوص دھنیں بجاتا ر ہا۔
گیارہ جنوری 2015ء کو پورے فرانس میں مجموعی طور پر چار ملین افراد سڑکوں پر نکلے تھے اور تب ان مظاہروں کو دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد سے اپنی نوعیت کے سب سے بڑے عوامی مظاہرے کہا گیا تھا۔ تب پیرس میں ہونے والے مظاہرے میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل، فلسطینی لیڈر محمود عباس اور اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو سمیت کئی دوسرے عالمی رہنما شریک ہوئے تھے۔
سات جنوری 2015ء کو ’شارلی ایبدو‘ کے دفتر پر انتہا پسندوں کے حملے میں مجموعی طور پر بارہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس جریدے نے سن 2006ء میں پیغمبرِ اسلام کے متنازعہ خاکے شائع کیے تھے اور غالباً اسی لیے یہ جریدہ ’جہادیوں‘ کی نظر میں تھا۔ فرانس کے لیے گزرے خونریز سال کا نقطہٴ عروج تیرہ نومبر کو فرانسیسی دارالحکومت میں مختلف مقامات پر کیے جانے والے وہ حملے تھے، جن میں ایک سو تیس افراد ہلاک ہو گئے۔ اتوار دَس جنوری کی ریلی میں گزشتہ سال کے دوران فرانس میں ہونے والے تمام حملوں کے متاثرین کو یاد کیا گیا۔
اس ریلی میں ’شارلی ایبدو‘ کے خاکہ نگاروں میں سے ایک کو جاننےوالا 54 سالہ Jacques Clayeux بھی شامل تھا، جس نے اُس کارٹونسٹ کو یاد کرتے ہوئے کہا:’’ہم سب اُن لوگوں کو دیکھتے دیکھتے جوان ہوئے لیکن آج میری کیفیات ملی جُلی ہیں۔ صحافیوں کو مارنا ایک ہولناک فعل ہے لیکن اس طرح کی ہنگامی حالت میں زندگی گزارنا بہت خوفناک ہے۔‘‘