شامیوں کو تو ترکی پناہ دے گا، باقیوں کا کیا ہو گا؟
شمشیر حیدر31 مارچ 2016
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن کو یونان سے واپس ترکی منتقل کرنے کا عمل چار اپریل سے شروع ہو رہا ہے۔ لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ غیر شامی مہاجرین کا مستقبل کیا ہو گا۔
اشتہار
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے شدہ معاہدے پر عمل درآمد کرنے میں دونوں جانب سے مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ یونین کی کوشش ہے کہ پیر چار اپریل کے روز کم از کم علامتی طور پر ہی سہی، لیکن غیر قانونی پناہ گزینوں کی ترکی واپسی کا عمل شروع ہو جائے تاکہ بحیرہ ایجیئن عبور کر کے مسلسل یونان پہنچنے والے نئے تارکین وطن میں کمی آ سکے۔
لیکن ابھی تک صورت حال غیر یقینی دکھائی دے رہی ہے۔ ترکی واپسی کا عمل شروع ہونے میں محض چند روز باقی رہ گئے ہیں لیکن ابھی تک معلوم نہیں ہے کہ کتنے غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجا جائے گا، یہ عمل ہو گا کیسے اور انہیں رکھا کہاں جائے گا۔ دوسری جانب بحیرہ ایجیئن کے راستوں سے یونان پہنچنے والے نئے تارکین وطن میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
یورپی کمیشن کی داخلی رپورٹ سے واقف افراد کا کہنا ہے کہ پیر سے پہلے کئی اقدامات کیے جانا باقی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ابھی ترکی اور یونان میں آئینی تبدیلیاں کی جانی ہیں، نقل و حرکت کے ذرائع کا تعین کرنا بھی ابھی باقی ہے اور یہ بھی طے کیا جانا ہے کہ شام کے علاوہ دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا مستقبل کیا ہو گا؟
یورپی یونین کے خصوصی مندوب اور انقرہ حکام کے مابین بدھ کے روز ہونے والی ملاقات کے بعد یونین کے رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ اس رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش کریں جس میں ترکی کو ’محفوظ ملک‘ قرار دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے اور افراد ترکی کو ’محفوظ ملک‘ قرار دیے جانے پر تحفظات رکھتے ہیں۔
یونان سے واپس بھیجے جانے والے شامی تارکین وطن کو رہائش فراہم کرنے کے لیے تو ترک حکام اور دیگر فلاحی ادارے سرگرم ہیں لیکن ایسے غیر قانونی تارکین وطن جنہیں پناہ کا حق دار نہیں سمجھا جاتا، ترکی انہیں اپنے وطنوں کی جانب واپس بھیجنا چاہتا ہے۔
پاکستانی تارکین وطن کے کرچی کرچی خواب
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘
تصویر: Iftikhar Ali
11 تصاویر1 | 11
ترک وزارت خارجہ کا کہنا ہے افغانستان، بنگلہ دیش، اریٹریا اور سومالیہ سمیت 14 ممالک کے ساتھ غیر قانونی تارکین وطن کی واپسی کے معاہدے طے پا چکے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں غیر شامی مہاجرین کی اپنے وطنوں کی جانب واپسی کے ترک منصوبے پر تنقید کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یونین اور ترکی کے مابین جلد بازی میں طے کیے گئے معاہدے میں کئی خامیاں پائی جاتی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ مہاجرین کے امور پر تحقیق کرنے والی خاتون ریسرچر ارم کا کہنا ہے، ’’ہر تارک وطن کے کیس کا انفرادی جائزہ لیا جانا چاہیے اور انہیں موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ ترکی واپس کیوں نہیں جانا چاہتا۔ جتنی عجلت میں یہ کام کیا جا رہا ہے اتنے وقت میں تو اس بات کا تعین کرنا ناممکن سی بات ہے۔‘‘
نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس محقق کا مزید کہنا تھا، ’’ہماری رائے میں ترکی مہاجرین اور تارکین وطن کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے۔ ہمارے سامنے ایسے کیس آئے ہیں جن میں شامی، عراقی اور افغان پناہ گزینوں کو جبراﹰ ترکی سے ملک بدر کیا گیا ہے۔‘‘
ایمنسٹی کے مطابق گزشتہ ہفتے 30 افغان شہریوں کو ترکی سے جبراﹰ ملک بدر کیا گیا تھا، حالانکہ ان تارکین وطن نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ انہیں طالبان نشانہ بنا سکتے ہیں۔ تاہم ترکی کی وزارت برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ یہ 27 افغان شہری اپنی مرضی سے وطن واپس گئے ہیں۔