کیمائی ہتھیاروں کے بین الاقوامی نگراں اداارے سے وابستہ تفتیش کاروں کی ایک ٹیم کا کہنا ہے شامی فضائیہ نے ملک کے مغربی علاقے میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔
اشتہار
کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے بین الاقوامی ادارے آرگنائزیشن فار دی پریوینشن آف کیمیکل ویپنز(او پی سی ڈبلیو)نے الزام لگایا ہے کہ شامی صدر بشارالاسد کی فوج نے شا م میں ایک مبینہ فوجی کارروائی کے دوران کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔
کیمیائی ہتھیاروں کے بین الاقوامی نگراں ادارے او پی سی ڈبلیوسے وابستہ تفتیش کاروں کا کہنا ہے شامی فضائیہ نے ملک کے مغربی علاقے میں حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔ لیکن روس کی حمایت یافتہ بشارالاسد حکومت نے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے۔
او پی سی ڈبلیو سے وابستہ تفتیش کاروں کی ایک خصوصی ٹیم کا کہنا ہے، ”یہ یقین کرنے کے لیے معقول وجوہات ہیں کہ شامی فضائیہ کے پچاسویں بریگیڈ کے جنگی جہاز سخوئی- 22 اور ہیلی کاپٹر سے شہر پر ایم 4000 بم گرائے گئے جن میں اعصاب شکن سارین گیس تھی، اس کے ساتھ ہی زہریلی کلورین سے بھرے ہوئے سیلنڈروں سے ایک اسپتال کو بھی نشانہ بنایا گیا۔''
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرت اور حما میں واقع فضائیہ کے اڈوں سے باغیوں کے اس وقت زیر قبضہ حما اور الطامانہ شہروں پر کیمیاوی ہتھیاروں سے حملے کئے گئے۔ یہ حملے 24، 25 اور 30 مارچ کو سن 2017 میں کیے گئے تھے۔
اوپی سی ڈبلیو کی تفتیشی ٹیم میں شامل سانٹیاگو اوناڈے لابورڈے کا کہنا ہے، ’’دفاعی حکمت عملی کے اعتبار اتنے اہم ٹھکانوں پر یہ حملے شامی فوج کی کمان سے وابستہ اعلی حکام کے احکامات کے بغیر نہیں کیے گئے ہوں گے۔‘‘ رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں تقریباﹰ ایک سو افراد متاثر ہوئے تھے۔
اس طرح کے غیر قانونی حملوں کی تفتیش اور اس میں ملوث افراد کا پتہ لگانے کے لیے اوپی سی ڈبلیو نے 2018 میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (آئی آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔ اس سے پہلے تک ادارہ صرف اس بات کی تفتیش کرتا تھا کہ آیا کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال ہوا یا نہیں، اس کا کام حملہ آوروں کی نشاندہی کرنا نہیں تھا۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں پہلے بھی بشار الاسد کی فوج پر کیمیاوی ہتھیاروں کے حملوں سے بہت سے لوگوں کو ہلاک کرنے کا الزام عائد کرتی رہی ہیں۔ شام اور روس کی شدید مخالفت کے باوجود اوپی سی ڈبلیو میں شامل بیشتر ارکان نے شام میں کیمیاوی ہتھیاروں سے حملے کی تفتیش کے لیے بھیجے جانی والی ٹیم کی حمایت کی تھی۔
شام میں روس کی حمایت یافتہ بشار الاسد کی حکومت کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے۔ اوپی سی ڈبلیو کے سربراہ فرنانڈو ایریاز کا کہنا ہے کہ آئی آئی ٹی کوئی عدالتی کمیٹی تو ہے نہیں اس لیے اب یہ اوپی سی ڈبلیو اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل پر منحصر ہے کہ وہ اس بارے میں مزیدکیا مناسب اور ضروری کارروائی کرتے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس رپورٹ کے حوالے سے نیو یارک میں اقوام متحدہ میں شامی اور روسی مندوبین سے ردعمل جاننے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی جانب سے ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے/ روئٹرز)
فکر و اطمينان کی کشمکش ميں مبتلا شامی کرد
شام ميں کردوں کے خلاف ترکی کی فوجی کارروائی اور دمشق حکومت کے دستوں کی واپسی نے مقامی کردوں کو ايک عجيب سی کشمکش ميں مبتلا کر ديا ہے۔ شامی فوج کی واپسی مقامی کردوں کے ليے فکر کا باعث ہے۔
تصویر: Karlos Zurutuza
دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ترکی کی شام ميں فوجی کارروائی کے نتيجے ميں اب تک دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہيں۔ ايسے ميں لاتعداد افراد نے سرحد پار کر کے عراق ميں کرد علاقوں کی طرف جانے کی کوشش کی ليکن صرف انہيں ايسا کرنے ديا گيا، جن کے پاس مقامی رہائش کارڈ يا اجازت نامہ تھا۔
تصویر: Karlos Zurutuza
سرحدی علاقوں ميں مردوں کی اکثريت
شام کے شمال مشرقی حصوں ميں کئی ديہات خالی ہوتے جا رہے ہيں کيونکہ وہاں سے بڑے پيمانے پر نقل مکانی جاری ہے۔ ترک سرحد کے قريب علاقوں سے عورتيں اور بچے، اندرون ملک صوبہ الحسکہ منتقل ہو رہے ہيں۔ نتيجتاً سرحدی علاقوں ميں اکثريتی طور پر مرد بچے ہيں۔ تين بچوں کی والدہ ايک خاتون نے ڈی ڈبليو کو بتايا کہ الحسکہ ميں بھی لوگوں کی کافی تعداد ميں آمد کے سبب حالات مشکل ہوتے جا رہے ہيں۔
تصویر: Karlos Zurutuza
چہل پہل والے علاقے آج ويران
عامودا کے اس بازار ميں ہر وقت گھما گھمی رہا کرتی تھی ليکن آج يہ ويران پڑا ہے۔ يہاں اب اکثر مرد اکھٹے ہوتے ہيں۔ نو اکتوبر کو شروع ہونے والی ترکی کی فوجی کارروائی کے بعد سے بہت سی دکانيں بند ہو چکی ہيں۔ شامی کرنسی کی قدر ميں کمی کے سبب دکاندار اپنی اشياء کوڑيوں کے دام بيچتے ہيں۔ شيلنگ اکثر صبح سے شروع ہوتی ہے۔ جو لوگ اب بھی اس شہر ميں موجود ہيں، وہ رات کو کم ہی باہر نکلتے ہيں۔
تصویر: Karlos Zurutuza
کل کے دشمن، آج کے دوست
ترک سرحد سے متصل شمال مشرقی شامی شہر قامشلی ميں کرد انتظاميہ اور صدر بشار الاسد کے حاميوں کے مابين حالات سن 2011 ميں خانہ جنگی کے آغاز ہی سے کشيدہ ہيں۔ شامی فوج کی ترک سرحد پر تعيناتی کے حوالے سے فريقين کے مابين تازہ ڈيل کے بعد ابھی تک يہ غير واضح ہے کہ علاقے کا حقيقی کنٹرول کس کے پاس ہو گا۔
تصویر: Karlos Zurutuza
دو محاذوں پر لڑائی
کرد فائٹرز ترک فوج اور انقرہ کے حمايت يافتہ جنگجوؤں کے خلاف برسرپيکار تو ہيں ليکن يہ واضح نہيں کہ اسد کی حمايت حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے ہی ملک ميں کس صورتحال سے دوچار ہوں گے۔ کيا اسد حکومت ان کے زير کنٹرول علاقوں پر اپنی مرضی مسلت کرے گی يا کردوں کو آزادی مل سکے گی۔
تصویر: Karlos Zurutuza
امريکا نے غلط وقت پر کردوں کا ساتھ چھوڑا
امريکا کی جانب سے يکطرفہ اور اچانک شام سے اپنی فوج کے انخلاء کے فيصلے سے شامی کرد سمجھتے ہيں کہ ان کے ساتھ اچھا نہيں کيا گيا۔ بہت سے مقامی لوگوں نے اس پر اطمينان کا اظہار کيا کہ ترک فوج کی پيش قدمی روکنے کے ليے ان کی انتظاميہ نے دمشق حکومت کے ساتھ سمجھوتہ کر ليا ہے۔
تصویر: Karlos Zurutuza
ہلاک شدگان کی تعداد ہزاروں ميں
شامی کردوں کے مطابق دہشت گرد تنظيم ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے خلاف لڑائی ميں ان کے گيارہ ہزار سے زائد جنگجو ہلاک ہوگئے۔ داعش کو اس علاقے ميں شکست ہو چکی ہے ليکن قتل و تشدد کے واقعات اب بھی جاری ہيں۔ ترکی کی چڑھائی کے بعد سے بھی درجنوں شہری اور سينکڑوں فائٹرز ہلاک ہو چکے ہيں۔