روسی وزیر دفاع کے مطابق شام میں پرتشدد عسکریت پسندوں کے باعث امن مذاکرات کا نیا آغاز غیر معینہ مدت تک مؤخر رہے گا۔ روسی وزیر کے بقول مغربی حکومتوں کے حمایت یافتہ باغی عام شہریوں کو ہلاک کرنے میں مصروف ہیں۔
اشتہار
روسی وزیر دفاع سیرگئی شوئیگُو کے اس تازہ بیان سے یہ امیدیں دوبارہ دم توڑ گئی ہیں کہ شام میں قیام امن کے لیے مذاکرات کا دوبارہ آغاز جلد ممکن ہو سکے گا۔ روسی وزیر دفاع کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حلب میں مغربی ممالک کے حمایت یافتہ باغی فائر بندی معاہدے کے باوجود عام شہریوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’نتیجے کے طور پر امن مذاکرات کے دوبارہ آغاز اور شام میں پرامن زندگی کی واپسی کی امید میں غیر معینہ مدت تک کے لیے تاخیر ہو جائے گی۔‘‘
روسی حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے ایک دوسرے بیان میں کہا گیا ہے کہ ابھی تک اسد حکومت اور روس حلب میں فضائی بمباری کے حوالے سے فائر بندی معاہدے پر کاربند ہیں لیکن باغیوں نے اپنے حملے بند نہ کیے تو ایسے کسی معاہدے میں توسیع ممکن نہیں رہے گی۔
حلب میں شامی باغیوں نے گزشتہ ہفتے حکومتی فورسز کے زیر کنٹرول مغربی حلب میں لڑائی کا آغاز کر دیا تھا۔ گزشتہ ایک ماہ سے زائد عرصے سے حکومتی فورسز روس کی مدد سے حلب شہر کے مشرقی حصے کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حکومتی فورسز نے اس علاقے کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
آج منگل یکم نومبر کے روز اقوام متحدہ نے کہا کہ حلب میں لڑائی کرنے والے تمام فریق ممکنہ طور پر جنگی جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں کیوں کہ وہ عام شہریوں کو ہلاک کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
شامی حکومت اور اس کے اتحادی روس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اٹھارہ اکتوبر سے حلب پر فضائی حملوں کا سلسلہ بند کر رکھا ہے۔ مغربی ملکوں کی حکومتیں صدر اسد اور روس پر الزام عائد کرتی ہیں کہ ان کی طرف سے بمباری میں عام شہریوں کی بڑی تعداد ہلاک ہوئی ہے جبکہ روس اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق حلب میں جنگ بندی کا معاہدہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے کیوں کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کہہ چکے ہیں کہ اس معاہدے کا انحصار ان اعتدال پسند باغی گروپوں کے رویے پر ہے، جن کو مغرب کی حمایت حاصل ہے۔
روسی وزیر دفاع کا آج کہنا تھا کہ اب مغربی ملکوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ دہشت گردوں کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں یا پھر روس کے خلاف۔ تجزیہ کاروں کے مطابق شام میں امن مذاکرات کا آخری موقع قریب آ چکا ہے اور اگر اسے ضائع کر دیا گیا تو جنگ کا سلسلہ مزید طویل ہو سکتا ہے۔
حلب: چمکتا دمکتا شہر کھنڈرات میں تبدیل
حلب، جو کبھی شام کا ایک کاروباری مرکز ہوا کرتا تھا، اب کھنڈرات پر مشتمل ایک صحرا میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اسد کی فوج اور باغیوں کے درمیان لڑائی نے ایک ہنستے بستے شہر کو کیسے بدل ڈالا ہے، اس کی ایک جھلک، اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/WYD Krakow2016
بمباری کے ہولناک اثرات
جہاں حلب شہر کا ایک حصہ بدستور صدر بشار الاسد کی فوج کے کنٹرول میں ہے، وہاں باغی دوسرے حصے کا دفاع جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دونوں جانب بے پناہ تباہی ہوئی ہے۔ اس تصویر میں شہر کا بنی زید نامی علاقہ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Ourfalian
کھنڈرات کے پہاڑ
دُور دُور تک پھیلی اور قطار در قطار بنی رہائشی عمارات راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ ہر بمباری کے بعد امدادی کارکن ملبے تلے دب جانے والے انسانوں کی تلاش میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/I. Ebu Leys
امدادی کارکن مسلسل مصروف
اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے اسد کے فوجی دستوں کی جانب سے کیے جانے والے ایک حملے کے بعد باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں ملبہ ہٹایا جا رہا ہے۔ بعض اوقات امدادی کارکن خالی ہاتھوں سے ملبہ ہٹا کر لوگوں کو باہر نکالنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Sultan
دھوئیں کے ساتھ اسد کی فوج کا مقابلہ
باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں حکومتی افواج کی پیشقدمی کو روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے مثلاً حلب کے مشہد نامی علاقے میں ٹائر جلائے جا رہے ہیں تاکہ دبیز دھواں حملہ آوروں کی دیکھنے کی صلاحیت کو کسی قدر محدود بنا سکے۔
تصویر: picture-alliance/AA/B. el Halebi
بے گھر لوگ سر پر چھت کی تلاش میں
سر پر چھت سے محروم ہو جانے والے شہری اپنے لیے کوئی نیا ٹھکانہ تلاش کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ بے گھر شہری خیموں میں ہی نہیں بلکہ تباہ شُدہ موٹر گاڑیوں میں بھی رات بسر کر لیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/A.H. Ubeyed
بھاگ کر آنے والوں کے لیے رہائشی مکانات
شامی حکومت نے باغیوں کے زیر انتظام علاقوں میں بسنے والے شہریوں سے یہ کہہ رکھا ہے کہ وہ اُن علاقوں کو چھوڑ کر نکل آئیں۔ ایسے شہریوں کے لیے حلب شہر کے شمال میں نئی رہائشی عمارات تعمیر کی جا رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP-Photo
مساجد بھی نشانہ
شام میں گزشتہ کئی سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران عبادت خانے بھی محفوظ نہیں رہے۔ شہر حلب کے قفر حمرہ نامی علاقے کی عمر بن خطاب مسجد کا حال اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/T. el Halebi
رات کو بھی سکون نہیں
رات کو بھی لڑائی جاری رہتی ہے۔ وقفے وقفے سے سیاہ دھوئیں کے بادل آسمان کی جانب بلند ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے حکومتی افواج کے اسلحے کے ایک گودام کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kurab
کھنڈرات کے پاس ہی باغیچہ
اس ساری تباہی کے بیچوں بیچ اپنے کھانے پینے کا انتظام کرنا بھی انسانوں کی مجبوری ہے مثلاً عبداللہ الکتماوی نے یہ ایک چھوٹا سا کچن گارڈن بنا رکھا ہے، جہاں وہ اپنے استعمال کی سبزی ترکاری پیدا کر لیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. El Halabi
روٹی کے انتظار میں
شہر میں ایسے مناظر اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ منظر حلب کے ایک شمالی علاقے کا ہے، جس پر باغیوں کا کنٹرول ہے۔ یہ لوگ روٹی جیسی بنیادی اَشیائے خوراک کے حصول کے لیے دیر تک قطاریں بنائے کھڑے رہتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Al-Masri
جنگ میں وقفہ
اس طرح کے جھولے شہر میں کبھی ایک جگہ دکھائی دیتے ہیں تو کبھی کسی دوسری جگہ۔ یہ جھولے غنیمت ہیں کہ ان کی وجہ سے بچے تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی لیکن جنگ کو بھول جاتے ہیں۔ یہ تصویر اس سال جولائی کے اوائل میں اُتاری گئی۔
تصویر: picture-alliance/AA/A.H. Ubeyed
جنگ کا کھیل
بچے جنگ کے مناظر کے عادی ہو چکے ہیں، اتنا زیادہ کہ وہ کھیل میں بھی جنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس تصویر میں حلب شہر کے باغیوں کے زیر انتظام علاقے کے بچے پلاسٹک کے ہتھیاروں سے کھیل رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Alhalbi
گرجا گھرمیں عبادت
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ سب کچھ ہی تباہ ہو چکا ہے۔ کیتھولک مسیحیوں کا یہ عبادت خانہ ابھی تک بمباری کا نشانہ بننے سے محفوظ رہا ہے۔ اسی گرجا گھر میں حال ہی میں سینکڑوں نوجوانوں نے ورلڈ یوتھ کانگریس کا جشن منایا۔