1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی انتہا پسندوں سے مبینہ روابط، جرمنی میں تین مشتبہ افراد گرفتار

عاطف بلوچ1 اپریل 2014

جرمن پولیس نے دارالحکومت برلن سمیت تین مختلف شہروں میں چھاپے مارتے ہوئے شامی باغیوں سے مبینہ تعلقات رکھنے والے تین افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

شامی خانہ جنگی میں مبینہ طور پر حصہ لینے کے بعد جرمنی واپس آنے والے ان مشتبہ افراد کے خلاف اس کارروائی کو جرمنی کی داخلی سلامتی کے لیے ممکنہ خطرہ تصور کیا جا رہا ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے اے پی کی ایک تجزیاتی رپورٹ میں جرمن پولیس کی طرف سے پير کے دن کی جانے والی اس کارروائی کو ایسے ہی ممکنہ خطرات کے خلاف ایک احتیاطی قدم قرار دیا گیا ہے۔ اس کارروائی میں جرمنی کی ایلیٹ GSG 9 فورس کے سو سے زائد اہلکاروں نے حصہ لیا جبکہ انہیں وفاقی اور ریاستی پولیس فورس کا تعاون بھی حاصل تھا۔

جرمن وفاقی دفتر استغاثہ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ برلن، فرینکفرٹ اور سابق دارالحکومت بون میں دس مختلف اپارٹمنٹس پر چھاپے مارے گئے اور ان تینوں شہروں سے ایک ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا گیا۔ بتایا گیا ہے ایسے پانچ مشتبہ افراد کے گھروں کی تلاشی بھی لی گئی ہے، جن پر شک ہے کہ وہ القاعدہ کی حامی ’اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ دی لیوانٹ‘ سے یا تو تعلق رکھتے ہیں یا ان کی مدد کرتے ہیں۔

جرمنی کے چیف فیڈرل پراسیکیوٹر ہیرالڈ رانگےتصویر: dapd

گرفتار شدہ افراد میں ایک ترک نژاد جرمن شہری بھی شامل ہے، جس کا نام فتح کے بتایا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شخص گزشتہ برس ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا رکن بننے کے لیے شام گیا تھا۔ فتح پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ جولائی اور ستمبر کے دوران شامی خانہ جنگی میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے رکن کے طور پر باقاعدہ طور پر حصہ لے چکا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمن حکومت اس انتہا پسند تنظیم کو کالعدم قرار دیتی ہے۔

حراست میں لیا گیا ایک اور مشتبہ شخص ترک شہری بتایا گیا ہے، جو جرمن استغاثہ کے مطابق گزشتہ برس ستمبر ميں شام گیا تھا۔ وہ رواں برس جنوری میں واپس جرمنی آنے کے بعد اس شدت پسند تنظیم کے لیے چندہ اکٹھا کر رہا تھا اور اس کا منصوبہ ایک مرتبہ پھر شام جانے کا تھا۔

پیر کے دن کی گئی کارروائی میں ایک خاتون کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جرمنی اور پولینڈ کی دوہری شہریت کی حامل اس ستائیس سالہ خاتون نے مبینہ طور پر اسلامک اسٹیٹ کو اڑتالیس ہزار یورو منتقل کیے ہیں۔

جرمنی کے چیف فیڈرل پراسیکیوٹر ہیرالڈ رانگے نے گزشتہ روز ان گرفتاریوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے، ’’آج کی کارروائی واضح کرتی ہے کہ شام جیسے تنازعات کے جرمنی پر بھی براہ راست اثرات پڑ رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ایسے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے جرمنی کو مؤثر طریقہ کار اختیار کرنا ہو گا۔ رانگے کے بقول شام سے واپس آنے والے ’ریڈیکلائزاڈ‘ افراد سے جرمنی کی آبادی کو خطرات لاحق ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں