1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی باغیوں کو مسلح کیا جائے، سابق شامی وزیر اعظم

3 اکتوبر 2012

شام کے سابق وزیراعظم ریاض حجاب نے کہا ہے کہ صدر بشار الاسد شامی بحران کا پر امن حل تلاش کرنے کی تمام تر تجاویز کو مسترد کر چکے ہیں، اس لیے اس حوالے سے ثالثی کی بین الاقوامی کوششیں وقت کو ضائع کرنے کے مترادف ہیں۔

تصویر: Reuters

اگست میں حکومت کے منحرف ہو جانے والے والے شام کے سابق وزیر اعظم ریاض حجاب نے ایک عرب ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ جولائی میں دمشق میں باغیوں کے حملے کے نتیجے میں وزیر دفاع اور اسد کے بردار نسبتی کی ہلاکت کے بعد اعلیٰ حکومتی اہلکاروں نے اسد کوسمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس تنازع کا کوئی عسکری حل نہیں ہے۔

شامی صدر بشار الاسدتصویر: Getty Images

خبر رساں ادارے روئٹرز نے منگل کے دن نشر کیے گئے اس انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ ریاض حجاب نے اس وقت نائب صدر، پارلیمنٹ کے سربراہ اور حکمران بعث پارٹی کے نائب سیکرٹری جنرل کے علاوہ کئی دیگر اعلیٰ حکومتی اہلکاروں سے ملاقاتیں کیں تاکہ وہ اسد پر دباؤ دیں کہ وہ اپوزیشن سے مذاکرات شروع کر دیں۔

ریاض حجاب نے مزید کہا کہ اسد نے ایسی تجاویز کو رد کر دیا۔ انہوں نے ملک کے اندر اور باہر اپوزیشن کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ایک مشترکہ ایجنڈے پر عمل پیرا منقسم اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات ممکن نہیں ۔ اسد کے بقول وہ محب الوطن اپوزیشن نہیں ہے بلکہ وہ مسلح ہے۔

شام کے سابق وزیر اعظم نے بتایا کہ اُس وقت اسد کے اِس جواب پر وہ دم بخود رہ گئے تھے، ’’یہ میرے لیے ایک دھچکا تھا۔ اس وقت میں مکمل طور پر نا امید ہو گیا تھا، بالخصوص اُس وقت جب سیرئین فری آرمی نے حلب کے 70 فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔

ریاض حجاب کے ان بیانات کی فوری طور پر آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روئٹرز کے مطابق اس انٹرویو میں حجاب نے مزید کہا کہ شام میں قیام امن کے لیے عالمی کوششوں کی ناکامی کے بعد وہاں خون خرابہ روکنے کے لیے اب صرف یہی حل رہ گیا ہے کہ اپوزیشن کو مسلح کیا جائے۔ انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ باغی شام کے ایک بڑے حصے پر قابض ہو چکے ہیں۔

شام کے سابق وزیراعظم ریاض حجابتصویر: Reuters

حجاب نے شام کے تنازعے کے حل کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کی طرف سے ثالثی کی کوششوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ شامی مندوب لخضر براہیمی کی کوششیں وقت کا زیاں ہیں کیونکہ اسد مذاکرات نہیں چاہتے۔

ادھر ایسی اطلاعات ہیں کہ شامی فوج نے دارالحکومت دمشق کے نواح کے علاوہ حلب میں اپنی کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپوزیشن ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ حلب میں مزید فوجی تعینات کر دیے گئے ہیں۔ شام میں گزشہ اٹھارہ ماہ سے جاری انتشار کے نتیجے میں سیرئین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے بقول اکتیس ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

شام میں تشدد کے تازہ واقعات ایسے وقت میں رونما ہونے شروع ہوئے ہیں جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے دمشق حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے عوام کے ساتھ ہمدردی کریں۔ شامی وزیر خارجہ ولید المعلم نے کہا ہے کہ اگر مغرب اور عرب ممالک باغیوں کی مدد کرنا بند کر دیں تو شام کے بحران کا سیاسی حل ابھی بھی ممکن ہے۔

( ab / ia (AFP, Reuters

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں