شامی باغیوں کی مدد میں اضافے کا امریکی منصوبہ
5 اپریل 2014امریکی ثالثی میں شروع ہونے والے شامی مذاکرات کی ناکامی کے بعد سے دمشق حکومت باغیوں کے خلاف متعدد کامیابیاں حاصل کر چکی ہے۔ شامی صدر بشار الاسد کی افواج کو لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے جنگجوؤں کا تعاون بھی حاصل ہے۔ اس لیے بالخصوص لبنان کی سرحد سے ملحقہ متعدد محاذوں پر باغی پسپا ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال میں ایسی خبریں سامنے آئی ہیں کہ امریکا نے شامی باغیوں کے ساتھ تعاون بڑھانے کے ایک اہم منصوبے کو حتمی شکل دینے کی کوشش تیز تر کر دی ہے۔
شامی اپوزیشن کے ساتھ تعاون سے متعلق اس امریکی منصوبے سے باخبر ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے جمعے کی شب روئٹرز کو بتایا کہ اردن کے ساتھ سرحد سے ملحقہ علاقوں میں فعال اعتدال پسند شامی باغیوں کو تربیت کے علاوہ چھوٹے عسکری آلات بھی فراہم کیے جائیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ شامی باغیوں کو مہیا کیے جانے والے اضافی عسکری ساز و سامان میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل شامل نہیں ہوں گے۔
شامی باغیوں نے صدر اوباما کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں بھاری اسلحہ فراہم کیا جائے تاکہ وہ روس کے اتحادی شامی صدر بشار الاسد کی فوج کے خلاف مؤثر کارروائی کر سکیں۔ یہ امر اہم ہے کہ دمشق حکومت نے حالیہ مہینوں میں باغیوں کے ٹھکانوں پر اپنے حملے تیز کر دیے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شامی خانہ جنگی کے دوران اب تک ایک لاکھ 36 ہزار افراد ہلاک جبکہ نو ملین سے زائد بے گھر ہو چکے ہیں۔
دوسری طرف اوباما انتظامیہ کو ایسے اندیشے بھی لاحق ہیں کہ اگر اعتدال پسند باغیوں کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے جدید میزائل فراہم کیے گئے تو وہ جہادی گروپوں کے ہاتھ بھی لگ سکتے ہیں، جن سے وہ واشنگٹن کے اتحادی ملک اسرائیل یا مسافر طیاروں وغیرہ کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق اوباما انتظامیہ اس بحث میں مصروف ہے کہ شامی باغیوں کی کس طرح سے معاونت کی جائے اور یہ کہ آیا اس تنازعے میں امریکا کی خصوصی فورسز کا بھی کوئی کردار ہونا چاہیے؟ اس منصوبے سے باخبر ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ باغیوں کو چھوٹے گروپوں میں تربیت فراہم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے اور مکمنہ طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اردن اور فرانس اس حوالے سے معاونت کریں گے۔
دوسری طرف ایسی خبریں بھی عام ہیں کہ باغیوں کی حمایت کرنے والی سعودی عرب اور قطر کی حکومتیں صدر اسد کے خلاف فعال گروپوں کو اسلحہ پہنچا رہی ہیں۔ تاہم شامی باغیوں کے مابین نظریاتی اختلافات کی وجہ سے اب یہ اسلحہ باغی گروہ ایک دوسرے کے خلاف بھی استعمال کر رہے ہیں۔
امریکا اور یورپی حکام کے مطابق صدر اسد کے خلاف برسر پیکار مضبوط گروپوں میں النصرہ فرنٹ اور ’اسلامک اسٹیٹ آف سیریا اینڈ دی لیوانٹ‘ نمایاں ہیں۔ ان گروہوں کے کچھ جنگجو یا تو القاعدہ سے وابستگی رکھتے ہیں یا وہ اتنے زیادہ انتہا پسندانہ خیالات کے مالک ہیں کہ القاعدہ بھی ان کی کارروائیوں کو ناپسند کرتی ہے۔