شامی بحران میں اب تک 31 ہزار ہلاکتیں
2 اکتوبر 2012شام میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نظر رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ شام میں صدر بشار الاسد حکومت کے خلاف احتجاج سے شروع ہونے والے اس بحران کے باعث اب تک 31,022 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ لندن میں قائم اس تنظیم کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمان کے مطابق گزشتہ 18 ماہ کے دوران ’’کم از کم 22,257 سویلین، 7,578 فوجی جبکہ 1,187 حکومت سے علیحدہ ہونے والے افراد پرتشدد واقعات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔‘‘
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق صرف گزشتہ ماہ یعنی ستمبر میں 4,727 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں سے 305 ہلاکتیں ایک ہی دن 26 ستمبر کو ہوئیں۔ یہ بحران شروع ہونے کے بعد سے ہلاکت خیز ترین دن تھا۔ آبزرویٹری کے مطابق کسی ایک ماہ کے دوران سب سے زیادہ ہلاکتیں رواں برس اگست میں ہوئیں جن کی تعداد 5,440 تھی۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ادارے UNHCR کی طرف سے کہا گیا ہے کہ شامی بحران کے باعث دیگر ملکوں میں پناہ لینے والے شامی مہاجرین کی تعداد تین لاکھ سے تجاور کر گئی ہے۔ UNHCR کے ترجمان ایڈریان ایڈورڈز کے مطابق عراق، اردن، لبنان اور ترکی میں پناہ لینے والے شامی شہریوں کی تعداد 312,000 ہو گئی ہے۔ یہ تعداد رواں برس جون میں مہاجرین کی تعداد کا تین گنا ہے۔ ایڈورڈز کے مطابق بہت جلد شروع ہونے والے موسم سرما کے باعث ان اور دیگر مہاجرت کرنے والے شامی شہریوں کے لیے بین الاقوامی امداد کی اشد ضرورت ہے۔
شام کے وزیر خارجہ ولید المعلم نے گزشتہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت نے خانہ جنگی کے سیاسی حل کے لیے اپنے دروازے ابھی بھی کھلے رکھے ہوئے ہیں لیکن مغرب اور خلیجی ملکوں کو باغیوں کی حمایت ترک کرنا ہو گی۔ ولید المعلم کا کہنا تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادی باغیوں کو نہ صرف اسلحہ بلکہ سرمایہ بھی فراہم کر رہے ہیں۔
ادھر روس نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو پر زور دیا ہے کہ وہ شام میں مداخلت سے باز رہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے روسی نیوز ایجنسی انٹرفیکس کے حوالے سے بتایا ہے کہ نائب وزیر خارجہ گیناڈی گاٹیلوف Gennady Gatilov نے نیٹو پر زور دیا ہے کہ وہ شام میں فوجی مداخلت کے لیے بہانے تلاش نہ کرے۔ انہوں نے شام میں بفر زون یا ’ہیومینٹرین کوریڈورز‘ کے قیام کی مخالفت بھی ہے۔ گاٹیلوف نے ترکی اور شام سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ سرحدی تناؤ میں اضافہ نہ کریں۔
(aba/ij (AFP, dpa