شام میں فضائی حملوں میں اندازہ ہے کہ ہزارہا بچے اپنے بازوؤں یا ٹانگوں سے محروم ہو چکے ہیں۔ یہ معصوم ایک ایسی جنگ کا شکار ہیں، جسے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان میں سے ایک مشرقی حلب کی ماجدہ بھی ہے۔ جولیا ہان کی رپورٹ۔
اشتہار
ماجدہ العمر پانچ برس کی تھی، جب ایک بیرل بم نے اس کی دائیں ٹانگ کے پرخچے اڑا دیے تھے۔ اسے وہ دن اور وہ حملہ اب بھی یاد ہے، ’’ہم ایک چھوٹی سی گاڑی میں دس دیگر فراد کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔ اچانک ایک جہاز نے ہم پر بم برسائے۔‘‘ ماجدہ کی عمر اب دس برس ہے۔ یہ کہانی سناتے ہوئے اس نے زمین پر دیکھنا شروع کر دیا، ’’پھر سب کچھ جل گیا، سب کچھ سیاہ رنگ کا ہو گیا۔‘‘
یہ واقعہ فروری 2013ء کا ہے، جب ماجدہ اپنے والدین اور دیگر چار بہن بھائیوں کے ساتھ مشرقی حلب میں جاری لڑائی کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہوئی تھی۔ ماجدہ کی والدہ صالحہ کے بقول، ’’اس حملے کے بعد جب مجھے ہوش آیا، تو میں نے ماجدہ کو زمین پر دیکھا، اس کی ایک ٹانگ غائب تھی۔ ہر جانب لاشیں بکھری ہوئی تھیں، جل کر راکھ ہو چکی لاشیں۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں دوزخ میں ہوں۔‘‘ ماجدہ کو فوراً ایک عارضی ہسپتال میں پہنچایا گیا کیونکہ اس کی متاثرہ ٹانگ کے بقیہ حصے کو جسم سے علیحدہ کرنا ضروری تھا۔
ایک زخمی نسل
ماجدہ کا خاندان ترکی پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ آج کل غازی انتپ میں رہ رہا ہے، جو شامی سرحد سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس علاقے میں تقریباً ڈھائی لاکھ شامی ہیں۔ ماجدہ اپنے گھر والوں کے ہمراہ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتی ہے۔ اس گھر میں کوئی تصویر یا پرانی زندگی کی کوئی ایسی چیز نہیں، جو انہیں ان کے آبائی گھر کی یاد دلائے۔ ماجدہ کہتی ہے، ’’ہم کچھ عرصے بعد جب ہسپتال سے باہر آئے، تو وہاں کئی لاشیں دکھائی دیں۔ ان میں سے ایک لاش ڈھکی ہوئی نہیں تھی۔ میری بہن نے تو آنکھیں بند کر لی تھیں لیکن میں نے لاش کو دیکھ لیا۔ کاش کہ میں ایسا نہ کرتی۔ وہ تصویر آج بھی میرے ذہن میں نقش ہے۔‘‘
’شام کی وہ دوزخ، جس کا ایندھن بچے ہیں‘
شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج، باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں چار لاکھ سے زائد شہری محصور ہیں اور تقریبا ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
مشرقی غوطہ میں طبی امداد فراہم کرنے والی تنظیم سیرئین سول ڈیفنس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اسد کی حامی فورسز نے بمباری کے دوران کلورین گیس کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور متاثرہ افراد کو سانس لینے مین دشواری کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
آزاد ذرائع سے کلورین گیس کے استعمال کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اس کی حمایت یافتہ فورسز یہ زیریلی گیس استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر قائم اس ’جہنم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘۔
تصویر: picture alliance/AA/Q. Nour
زیر محاصرہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں شدید فضائی حملوں کے بعد وہاں پھنسے عام شہری امداد اور طبی مدد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
گزشتہ ایک ہفتے میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے مشرقی غوطہ پر کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سلامتی کونسل نے شام میں 30 روزہ فائربندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فائربندی پر عمل درآمد ’بلاتاخیر‘ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود روسی طیاروں نے ہفتے کے ہی روز مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آبزرویٹری نے مزید بتایا کہ ہلاک شدگان میں 127 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
شامی خانہ جنگی سے متعلق صلاح و مشورے کے لیے آج پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ وزرائے خارجہ یہ طے کریں گے کہ کس طرح مشرقی غوطہ میں ظلم و تشدد کے شکار شہریوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/B.Khabieh
سلامتی کونسل کی قرارداد میں تیس روزہ فائر بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران امدادی سامان کی ترسیل اور شدید زخمیوں کو متاثرہ علاقوں سے باہر نکالا جائے گا۔ اس قرارداد میں شامی باغیوں کے گڑھ مشرقی غوطہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
مشرقی غوطہ دو مسلم گروپوں میں منقسم ہے اور وہاں شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ بھی سرگرم ہے۔ روس نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی تھی تاکہ وہاں موجود باغی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل جائیں، بالکل اسی طرح جیسا 2016ء میں حلب میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم غوطہ میں تمام باغی تنظیموں نے اس روسی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Al-Bushy
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان رہنماؤں نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فائربندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al-Bushy
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران اس علاقے میں کم از کم پانچ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ ان حملوں کے بعد کئی ہسپتال معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل نہ رہے۔
تصویر: picture alliance/AA/K. Akasha
ان حملوں کے حوالے سے شامی حکومتی افواج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن اسد حکومت اکثر یہی کہتی ہے کہ سرکاری افواج کی طرف سے صرف باغیوں اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/Syrian Civil Defense White Helmets
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس نے شام میں ان تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
دس سالہ ماجدہ اب ایک مصنوعی ٹانگ اور بہت زیادہ تربیت کے بعد دوبارہ سے چلنے پھرنے کے قابل ہو چکی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اب بہت خوش ہے۔ لیکن عام زندگی میں اسے مشکلات کا سامنا ضرور ہے، ’’دوسرے بچے صبح اٹھ کر بستر سے اچھل کر باہر نکلتے ہیں۔ وہ تیار ہوتے ہیں اور اسکول کی راہ لیتے ہیں لیکن مجھے کم از کم ایک گھنٹہ لگتا ہے اپنے مصنوعی ٹانگ جوڑنے میں۔ کبھی کبھار والدہ میری مدد کرتی ہیں۔‘‘
ماجدہ کو باقاعدگی سے نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس بھی جانا پڑتا ہے۔ ماجدہ ترکی کے ایک سرکاری اسکول میں چوتھی جماعت میں پڑھ رہی ہے۔ ریاضی اس کا پسندیدہ مضمون ہے اور وہ ایک ڈاکٹر بننا چاہتی ہے، ’’اکثر بچوں کو جب میری مصنوعی ٹانگ کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو وہ مجھ سے دور ہو جاتے ہیں اور میرے ساتھ نہیں کھیلتے۔ میری کہانی سننے کے بعد صرف بچوں کا ہی نہیں بلکہ بڑوں کا رویہ بھی میرے ساتھ بدل جاتا ہے۔ تاہم میرے اساتذہ میرا بہت زیادہ خیال کرتے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے مطابق شامی جنگ پندرہ لاکھ افراد کو معذور کر چکی ہے۔ ان میں سے اسّی ہزار کے جسمانی اعضاء کاٹنا پڑے۔ ان میں سے بہت سے ماجدہ کی طرح کے بچے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بہبود اطفال کا کہنا ہے کہ شام میں ’جسمانی اور نفسیاتی معذروں‘ کی ایک پوری نسل موجود ہے۔