شامی تنازعہ: دنیا اپنی انسانیت کھو بیٹھی ہے، ملالہ
26 ستمبر 2015اس وقت اٹھارہ سالہ ملالہ یوسفزئی نے، جو لڑکیوں کے تعلیم کے بنیادی حق کی وکالت کی وجہ سے شمال مغربی پاکستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے حملے کا نشانہ بنی تھیں، کہا کہ وہ شام اور عراق میں انتہا پسندوں کے ہاتھوں لڑکیوں کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات پر اتنی پریشان ہوئیں کہ انہوں نے خبریں دیکھنا بند کر دیں۔
نیو یارک میں اقوام متحدہ کے صدر دفاتر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ انہیں ابھی تک دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایلان کردی نامی اس شامی بچے کی تصویر بار بار یاد آتی ہے، جس کی لاش ترکی کے ایک ساحل سے ملی تھی اور جو اپنی سلامتی کے لیے بڑی تعداد میں یورپ کا رخ کرنے والے شامی باشندوں کی پرخطر مہاجرت کی عالمگیر علامت بن گئی تھی۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سولہ سال کی عمر میں پاکستان کی وادی سوات میں طالبان کے خونریز حملے کا نشانہ بننے والے ملالہ یوسفزئی نے کہا، ’’جس دن ایلان کردی کا انتقال ہوا، جس دن کسی بھی بچے کو خوش آمدیدکہنے سے انکار کر دیا گیا، اس دن دنیا اپنی انسانیت کھو بیٹھی تھی۔‘‘
اس وقت برطانیہ میں رہائش پذیر ملالہ یوسفزئی نے مزید کہا، ’’ضروری بات یہ ہے کہ ایسے انسانوں کے لیے اپنے گھروں اور دلوں کو کھلا رکھا جائے، جنہیں مدد کی ضرورت ہے اور جو محض یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ انہیں بھی ان کا زندہ رہنے کا حق دیا جائے۔‘‘
اس موقع پر اس پاکستانی طالبہ نے اپیل کرتے ہوئے کہا، ’’عالمی رہنماؤں کو ان بچوں کو بھی اپنے بچے سمجھنا چاہیے، جو شام اور عراق میں عسکریت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ یا دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ہاتھوں زیادتیوں اور استحصال کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس تنظیم کے جہادیوں نے اقلیتی نسلی گروپوں سے تعلق رکھنے والی بہت سی لڑکیوں کو جنسی غلام تک بنا رکھا ہے۔‘‘
نوبل امن انعام پانی والی دنیا کی سب سے کم عمر شخصیت ملالہ یوسفزئی نے یہ باتیں نیو یارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز پہنچنے پر کہیں، جہاں وہ اس عالمی ادارے کے ایک نئے ترقیاتی ایجنڈے کی منظوری کے سلسلے میں گئیں۔
اس ایجنڈے کے تحت اقوام متحدہ اگلے پندرہ برسوں کے دوران دنیا سے انتہائی غربت کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔ ملالہ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز جاتے ہوئے اپنے ساتھ چار ایسی لڑکیوں کو بھی لے کر گئیں، جن میں ایک شامی مہاجر لڑکی بھی شامل تھی۔
قبل ازیں نیو یارک ہی میں جمعہ پچیس ستمبر کے روز ملالہ یوسفزئی نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ ایک ملاقات بھی کی، جو یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران سے نمٹنے کی کوششوں اور یورپی یونین میں شامی مہاجرین کو پناہ دینے کی حمایت کرنے والی اہم ترین اور سب سے بلند آواز یورپی سربراہ حکومت ہیں۔