شام میں جاری خانہ جنگی میں لڑائی فقط بشارالاسد کی حامی فورسز اور باغی جنگجوؤں ہی کے درمیان نہیں بلکہ کئی غیرملکی طاقتیں بھی اپنے مفادات کے لیے اس تنازعے کا حصہ ہیں۔
اشتہار
شام میں سن 2011ء سے جاری اس تنازعے میں اب تک کئی لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ دیگر لاکھوں گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔ اس تنازعے کی ابتدا پر بشارالاسد کی حامی فورسز کو متعدد مقامات پر پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی اور ملک کے ایک بڑے حصے کا قبضہ ان کے ہاتھوں سے جاتا رہا تھا، تاہم اس دوران غیرملکی طاقتیں بھی اس تنازعے میں کود پڑیں اور حتمی نتیجہ شامی شہریوں کی مشکلات میں اضافے کی صورت میں نکلا۔
برلن میں نمائش: ’مہاجرین ایک بہت بڑا چیلنج‘
جرمن دارالحکومت میں ’مہاجرین ایک بہت بڑا چیلنج‘ کے عنوان سے تصویروں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ اس نمائش میں اس چیلنج کی مختلف جہتوں کا تصویری اظہاریہ شامل کیا گیا تھا۔
تصویر: Matthias Nold
مہاجرین کی زندگی
جرمن فوٹوگرافر ہیرلنڈے کوئلبل نے یہ دستاویزی تصاویر یونان، اٹلی اور جرمنی میں 50 سے زائد پناہ گزینوں کے مہاجر مراکز میں مہاجرین کی روز مرہ کی زندگی کو عکس بند کیا ہے۔
تصویر: Matthias Nold
مہاجرین کی خیمہ بستیاں
یونان اور اٹلی کے جزائر پر مہاجرین کی بڑی تعداد کی آمد کے بعد ان کی نقل و حرکت کو محدود رکھنے کے لیے انہیں ان جزائر پر ہی روکا جاتا ہے۔ مہاجرین کی عارضی رہائش کے لیے عمومی طور پر خیموں یا شیلٹرز کا بندوبست کیا جاتا ہے۔
تصویر: Matthias Nold
منفرد عکاسی
فوٹوگرافر ہیرلنڈے کوئلبل نے یورپ کے ساحلوں پر مہاجرین کی آمد کے بعد کے مناظر کو منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ اسی تناظر میں مشائل روتھ نے اپنی تقریر میں کہا کہ گزشتہ سال یورپی یونین اور ترقی کے درمیان مہاجرین کے سلسلے میں طے کیا جانے والا معاہدہ بہت اہم تھا۔
تصویر: Matthias Nold
تصاویر سے رہنمائی
برلن میں دفترِ خارجہ کے دالان میں وفاقی وزیر برائے یورپ مشائیل روتھ نے’مہاجرین، ایک بڑا چیلنج‘ نمائش کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر مشائل روتھ نے فوٹوگرافر ہیرلنڈے کوئلبل کے فن پاروں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ نمائش میں پیش کی جانے والی تصاویر یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں آنے والے مہاجرین کی موجودہ صورت حال کو کیسے بہتر کیا جائے۔
تصویر: Matthias Nold
یونان، اٹلی اور جرمنی میں مہاجرین کے مراکز کی حالت
مجموعی طور پر کوئلبل نے ان فن پاروں میں پناہ گزینوں کو خیموں میں پیش آنے والے مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ کوئلبل نے شرکاء کو بتایا کہ یونان اور ااٹلی کے مقبالے میں جرمنی میں پناہ گزینوں کی رہائش گاہ کی صورت حال قدرے بہتر ہے۔
تصویر: Matthias Nold
ایک تصویر ایک کہانی
تصاویری نمائش ’مہاجرین ایک بہت بڑا چیلنج‘ میں کثیر تعداد میں سیاسی، سماجی، اور ذرائع ابلاغ کی طرح ہر سماجی حلقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ اس موقعے پر شرکاء کا کہنا تھا کہ چند تصویریں صرف ایک لمحہ نہیں بلکہ پناہ گزینوں کی تمام زندگی کی کہانی پیش کرتی ہیں۔
تصویر: Matthias Nold
6 تصاویر1 | 6
ایران
ایران اس لڑائی میں بشارالاسد کی حکومت کا ساتھ دے رہا ہے۔ اس تنازعے میں ایرانی فورسز بھی شامل ہیں جب کہ تہران حکومت سرمایے، ہتھیاروں اور خفیہ معلومات کے ذریعے بھی شامی فورسز کی مدد کر رہی ہے۔ شام میں ایران کے عسکری مشیر بھی موجود ہیں جب کہ تہران حکومت کی ایما پر لبنانی شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ کے جنگجو بھی شام میں بشارالاسد کے مخالفین کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔
اس تنازعے میں ایرانی شمولیت شیعہ ازم کے محافظ کے طور پر دکھائی دیتی ہے۔ بشارالاسد کا تعلق اسی فرقے سے ہے اور ایران چاہتا ہے کہ بشارالاسد اقتدار پر براجمان رہیں۔
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
جنگ سے پہلے حلب شمالی شام کا ایک بارونق اور ہنستا بستا شہر تھا، جو شام کا اقتصادی مرکز اور سیاحوں میں بے حد مقبول تھا۔ موازنہ دیکھیے کہ کھنڈر بن چکے مشرقی حلب کے کئی مقامات پہلے کیسے تھے اور اب کس حال میں ہیں۔
اموی جامع مسجد پہلے
سن 2010ء میں ابھی اُس باغیانہ انقلابی تحریک نے حلب کی جامع الاموی کے دروازوں پر دستک نہیں دی تھی، جو تب پوری عرب دُنیا میں بھڑک اٹھی تھی۔ یہ خوبصورت مسجد سن 715ء میں تعمیر کی گئی تھی اور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
اموی جامع مسجد آج
سن 2013ء کی جھڑپوں کے نتیجے میں اس مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔ چوبیس مارچ سن 2013ء کو اس مسجد کا گیارہویں صدری عیسوی میں تعمیر ہونے والا مینار منہدم ہو گیا۔ آج یہ مسجد ایک ویران کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حمام النحاسین پہلے
حلب شہر کے قدیم حصے میں واقع اس حمام میں 2010ء کے موسمِ خزاں میں لوگ غسل کے بعد سکون کی چند گھڑیاں گزار رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
حمام النحاسین آج
چھ سال بعد اس حمام میں سکون اور آرام نام کو نہیں بلکہ یہاں بھی جنگ کے خوفناک اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قلعہ پہلے
حلب کا یہ قلعہ دنیا کے قدیم ترین اور سب سے بڑے قلعوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے اندر واقع زیادہ تر عمارات تیرہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئیں۔
تصویر: Reuters/S. Auger
حلب کا قلعہ آج
ایک دور تھا کہ بڑی تعداد میں سیاح اس قلعے کو دیکھنے کے لیے دور دور سے جایا کرتے تھے۔ اب جنگ کے نتیجے میں اس کا بڑا حصہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ پہلے
چوبیس نومبر 2008ء: حلب شہر کا قدیم حصہ۔ لوگ رنگ برنگی روشنیوں کے درمیان ایک کیفے میں بیٹھے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ آج
تیرہ دسمبر 2016ء: حلب شہر کا قدیم علاقہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) پہلے
یہ تصویر دسمبر 2009ء کی ہے۔ حلب کے مشہور ڈیپارٹمنٹل اسٹور شھباء مول کی چھت سے کرسمس کے تحائف لٹک رہے ہیں۔ اس پانچ منزلہ ڈیپارٹمنٹل اسٹور کا افتتاح 2008ء میں ہوا تھا اور اس کا شمار ملک کے سب سے بڑے اسٹورز میں ہوتا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) آج
آج جو کوئی بھی گوگل میں شھباء مول کے الفاظ لکھتا ہے تو جواب میں اُسے یہ لکھا نظر آتا ہے: ’مستقل طور پر بند ہے۔‘‘ اس اسٹور کو 2014ء میں کی جانے والی بمباری سے شدید نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار پہلے
یہ تصویر 2008ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے ایک بازار کا داخلی دروازہ روشنیوں سے جگمگا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار آج
یہ تصویر دسمبر 2016ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے اس مشہور بازار کا داخلی دروازہ تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
12 تصاویر1 | 12
روس
روس نے سن 2015ء میں صدر بشارالاسد کی افواج کی مدد کے لیے شام میں عسکری کارروائیوں کا آغاز کیا۔ ماسکو حکام کے مطابق روسی طیارے شام میں دہشت گرد تنظیموں کو نشانہ بنا رہے ہیں، تاہم روسی بمباری بشارالاسد کے مخالف دیگر گروہوں پر بھی دیکھی گئی ہے۔ روس چاہتا ہے کہ بشارالاسد اقتدار میں رہیں اور مشرق وسطیٰ میں اس کا اثرورسوخ قائم رہے۔
سعودی عرب
ریاض حکومت شام میں اپوزیشن فورسز بہ شمول چند مسلم عسکریت پسند گروپوں کو ہتھیار اور سرمایہ فراہم کرتی رہی ہے۔ امریکی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد میں شامل سعودی عرب نے اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فضائی کارروائیوں میں بھی حصہ لیا۔ سعودی عرب سنی اکثریتی آبادی کا حامل ملک ہے اور شام میں ایران مخالف اور سعودی عرب کی حامی حکومت کا قیام چاہتا ہے، جو بشارالاسد کی جگہ قائم ہو۔
شام میں ترک فوجی آپریشن، جرمنی میں کردوں کے احتجاجی مظاہرے
ترکی کی جانب سے شمالی شام میں کرد اکثریتی علاقوں میں کیے جانے والے عسکری آپریشن کے تناظر میں جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
کردوں کے مظاہرے
جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں شام اور عراق کے کرد علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کرد فورسز کے خلاف ترکی کے عسکری آپریشن پر سراپا احتجاج ہیں۔ مظاہرین میں کردوں کی اپنی ایک علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
عفرین میں ترک فوجی آپریشن
ترک فورسز شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔
ایردوآن اور میرکل پر تنقید
مظاہرین جرمنی کی جانب سے ترکی کو فروخت کیے جانے والے ہتھیاروں پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔ ترک صدر ایردوآن تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود کہہ چکے ہیں کہ وہ شام میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف عسکری آپریشن جاری رکھیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Jensen
بون میں بھی مظاہرے
جرمنی میں کرد باشندوں کی جانب سے شہر بون میں اقوام متحدہ کے ایک مرکزی دفتر کے قریب بھی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرین ترکی کی جانب سے شامی علاقوں میں کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف آپریشن کی فوری بندش کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: DW/C. Winter
صدر ایردوآن کا سخت موقف
صدر ایردوآن کا کہنا ہے کہ امریکا کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ ترکی امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ انقرہ کا موقف ہے کہ یہ عسکریت پسند کالعدم تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی کا حصہ ہیں، جو ایک طویل عرصے سے ترکی میں کرد اکثریتی علاقوں کی باقی ماندہ ترکی سے علیحدگی کے لیے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/B. Ozbilici
کرد فورسز کو امریکی امداد کی بندش کا ترک مطالبہ
ترک حکومت نے امریکا سے کہا ہے کہ وہ کرد ملیشیا گروپوں کو ہتھیاروں کی فراہمی فوری طور پر بند کرے۔ دوسری جانب واشنگٹن حکومت نے ترکی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کارروائیوں سے باز رہے، جن سے ترک اور شام میں موجود امریکی فورسز کے درمیان کسی ممکنہ ٹکراؤ کی صورت حال پیدا ہونے کا خطرہ ہو۔
تصویر: Reuters/Presidential Palace/K. Ozer
6 تصاویر1 | 6
ترکی
ترکی اور شام کے درمیان حکومتی سطح پر تعلقات کچھ برس قبل تک نہایت اچھے تھے، تاہم شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد ترکی نے شام میں بشارالاسد کے مخالف باغیوں (سوائے کرد جنگجوؤں کے) ہتھیار فراہم کیے۔ ترکی نے بشارالاسد مخالف فورسز کو اپنی سرزمین پر بھی جگہ دی، تاکہ وہ شامی فورسز کو نشانہ بنا سکیں۔ ترکی کی کوشش ہے کہ شام میں کرد مخالف اپوزیشن فورسز کو طاقت ور کیا جائے اور دمشق میں ترکی کی حامی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔
اسرائیل
شامی تنازعے کے آغاز کے بعد سے اسرائیل وقفے وقفے سے حزب اللہ کے خلاف فضائی حملے کرتا رہا ہے۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ شام میں ایرانی اثرورسوخ قائم نہ ہو۔ ایرانی رہنما اسرائیل کے خلاف سخت ترین بیانات دیتے آئے ہیں۔ اسرائیل کی یہ کوشش بھی ہے کہ شام میں حزب اللہ مضبوط نہ ہو سکے۔ اس گروہ کی جانب سے ہم سایہ ملک لبنان سے اسرائیل پر راکٹ داغے جاتے رہے ہیں۔ اسرائیل کو خوف ہے کہ یہ عسکری گروہ گولان کے پہاڑی سلسلے سے بھی اسرائیل پر ایسے ہی حملے کر سکتا ہے۔
شامی خانہ جنگی: آغاز سے الرقہ کی بازیابی تک، مختصر تاریخ
سن دو ہزار گیارہ میں شامی صدر کے خلاف پرامن مظاہرے خانہ جنگی میں کیسے بدلے؟ اہم واقعات کی مختصر تفصیلات
تصویر: picture-alliance/dpa
پندرہ مارچ، سن دو ہزار گیارہ
مارچ سن ہزار گیارہ میں شام کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ عرب اسپرنگ کے دوران جہاں کئی عرب ممالک میں عوام نے حکومتوں کے تختے الٹ دیے، وہیں شامی مظاہرین بھی اپنے مطالبات لیے سڑکوں پر نکلے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ حکومت سیاسی اصلاحات کرے۔ تاہم پندرہ مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتے عوام پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چار شہری مارے گئے۔
تصویر: dapd
اٹھائیس مارچ، سن دو ہزار گیارہ
شامی صدر بشار الاسد کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے عوامی مظاہروں کو کچل دیا جائے گا۔ پندرہ مارچ سے شروع ہوئے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اٹھائیس مارچ تک ساٹھ مظاہرین ہلاک کر دیے گئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے شام بھر میں پھیلنے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اٹھارہ اگست، سن دو ہزار گیارہ
شامی حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کے جواب میں تب امریکی صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور امریکا میں تمام شامی حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم شامی صدر نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کر دیے اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی گئی۔
تصویر: AP
انیس جولائی، سن دو ہزار بارہ
جولائی سن دو ہزار بارہ میں حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو گیا۔ تب درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں بھی جھڑپوں میں شدت آ گئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔
تصویر: dapd
دسمبر، سن دو ہزار بارہ
برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیریئن کولیشن سے تعاون بھی شروع کر دیا گیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیے۔ دوسری طرف اسد کے خلاف جاری لڑائی میں شدت پسند عسکری گروہ بھی ملوث ہو گئے۔ ان میں القاعدہ نمایاں تھی۔
تصویر: Reuters
انیس مارچ، سن دو ہزار تیرہ
اس دن خان العسل میں کیمیائی حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر تعداد شامی فوجیوں کی تھی۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے مطابق یہ سارین گیس کا حملہ تھا۔ تاہم معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کارروائی کس نے کی تھی۔ حکومت اور باغی فورسز نے اس حملے کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی سال عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
ستائیس ستمبر، دو ہزار تیرہ
شامی تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے دمشق حکومت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ نہ بنایا تو اس کے خلاف عسکری طاقت استعمال کی جائے گی۔ تب صدر اسد نے ان خطرناک ہتھیاروں کا ناکارہ بنانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اسی دوران سیاسی خلا کی وجہ سے انتہا پسند گروہ داعش نے شام میں اپنا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
جون، سن دو ہزار چودہ
شامی شہر الرقہ پہلا شہر تھا، جہاں انتہا پسند گروہ داعش نے مکمل کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جون میں داعش نے اس شہر کو اپنا ’دارالخلافہ‘ قرار دے دیا۔ تب ان جنگجوؤں نے اسی مقام سے اپنے حملوں کا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔ بائیس ستمبر کو امریکی اتحادی افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/Yaghobzadeh Rafael
تئیس ستمبر، دو ہزار پندرہ
شامی تنازعے میں روس اگرچہ پہلے بھی شامی بشار الاسد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے تھا تاہم اس دن ماسکو حکومت شامی خانہ جنگی میں عملی طور پر فریق بن گئی۔ تب روسی جنگی طیاروں نے اسد کے مخالفین کے خلاف بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تاہم ماسکو کا کہنا تھا کہ وہ صرف جہادیوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/M. Japaridze
مارچ، سن دو ہزار سولہ
روسی فضائیہ کی مدد سے شامی دستوں کو نئی تقویت ملی اور جلد ہی انہوں نے جنگجوؤں کے قبضے میں چلے گئے کئی علاقوں کو بازیاب کرا لیا۔ اس لڑائی میں اب شامی فوج کو ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا تعاون بھی حاصل ہو چکا تھا۔ مارچ میں ہی اس اتحاد نے پالمیرا میں داعش کو شکست دے دی۔
تصویر: REUTERS/O. Sanadiki
دسمبر، سن دو ہزار سولہ
روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے تعاون سے شامی فوج نے حلب میں بھی جہادیوں کو پسپا کر دیا۔ تب تک یہ شہر خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ شہری علاقے میں شامی فوج کی یہ پہلی بڑی کامیابی قرار دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. al-Masri
جنوری، سن دو ہزار سترہ
امریکا، ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کی وجہ سے شامی حکومت اور غیر جہادی گروہوں کے مابین ایک سیزفائر معاہدہ طے پا گیا۔ تاہم اس ڈیل کے تحت جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا۔
تصویر: Reuters/R. Said
اپریل، سن دو ہزار سترہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد حکم دیا کہ شامی حکومت کے اس فوجی اڈے پر میزائل داغے جائیں، جہاں سے مبینہ طور پر خان شیخون میں واقع شامی باغیوں کے ٹھکانوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا۔ امریکا نے اعتدال پسند شامی باغیوں کی مدد میں بھی اضافہ کر دیا۔ تاہم دوسری طرف روس شامی صدر کو عسکری تعاون فراہم کرتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/US Navy
جون، سن دو ہزار سترہ
امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے فائٹرز نے الرقہ کا محاصرہ کر لیا۔ کرد اور عرب جنگجوؤں نے اس شہر میں داعش کو شکست دینے کے لیے کارروائی شروع کی۔ اسی ماہ روس نے اعلان کر دیا کہ ایک فضائی حملے میں داعش کا رہنما ابوبکر البغدادی غالباﹰ مارا گیا ہے۔ تاہم اس روسی دعوے کی تصدیق نہ ہو سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Huby
اکتوبر، دو ہزار سترہ
ستمبر میں کرد فورسز نے الرقہ کا پچاسی فیصد علاقہ بازیاب کرا لیا۔ اکتوبر میں اس فورس نے الرقہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر کارروائی کا آغاز کیا۔ مہینے بھر کی گھمسان کی جنگ کے نتیجے میں اس فورس نے سترہ اکتوبر کو اعلان کیا کہ جہادیوں کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے۔ اس پیشقدمی کو داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تاہم شامی خانہ جنگی کے دیگر محاذ پھر بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔
تصویر: Reuters/E. de Castro
15 تصاویر1 | 15
امریکا
امریکا نے سن 2014ء میں عراق اور شام میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فضائی حملوں کا آغاز کیا۔ وہ شمالی شام میں کرد فورسز سمیت بشارالاسد کے مخالفین کو ہتھیار اور فضائی مدد فراہم کرتا رہا ہے۔ کرد فورسز کی یہی امداد اس وقت ترکی اور امریکا کے درمیان کشیدگی کی وجہ بھی ہے۔ واشنگٹن کی کوشش ہے کہ شام میں اسلامک اسٹیٹ کو شکست دی جائے، تاہم بشارالاسد کے تیئں امریکا کی پالیسی بہت زیادہ واضح نہیں ہے۔ سابق صدر اوباما بشارالاسد سے اقتدار چھوڑنے کے مطالبات کرتے رہے تاہم ٹرمپ انتظامیہ اس بشارالاسد کے حوالے سے کسی حد تک نرم گوشہ رکھتی ہے۔
جرمنی
جرمنی شامی علاقوں پر اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فضائی نگرانی میں مدد دیتا رہا ہے، جب کہ برلن روس اور ایران سے بھی مطالبات کرتا رہا ہے کہ وہ بشارالاسد کو اقتدار چھوڑنے پر آمادہ کریں۔ برلن حکومت کی خواہش ہے کہ جرمنی میں متعدد دہشت گردانہ حملوں میں ملوث اسلامک اسٹیٹ کو شکست دی جائے، تاہم جرمنی اسد حکومت کا خاتمہ بھی چاہتا ہے۔ برلن حکومت کا موقف ہے کہ جب تک بشارالاسد اقتدار میں رہیں گے، شام میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔
فرانس، انسداد دہشت گردی کے نئے قوانین میں نیا کیا ہے؟
فرانس سکیورٹی کو یقینی بنانے کی خاطر نئے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں، جن کے تحت انسداد دہشت گردی کے لیے بھی کئی شقیں شامل ہیں۔ آخر ان ضوابط میں ہے کیا؟ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں ان کے اہم حصوں پر۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Tribouillard
نقل وحرکت پر پابندیاں
نئے قانون کے مطابق ایسے مشتبہ افراد، جن پر دہشت گرد تنظیموں سے روابط کا شبہ ہو گا، وہ اس شہر سے باہر نہیں جا سکیں گے، جہاں ان کی رجسٹریشن ہوئی ہو گی۔ انہیں روزانہ کی بنیاد پر متعلقہ تھانے میں پیش بھی ہونا پڑے گا۔ ایسے افراد کے کچھ مخصوص مقامات پر جانے پر پابندی بھی عائد کی جا سکے گی۔ یہ اقدامات صرف انسداد دہشت گردی کے لیے ہوں گے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
گھروں کی تلاشی
نئے قوانین کے تحت متعلقہ حکام انسداد دہشت گردی کی خاطر کسی بھی مشتبہ شخص کے گھر کی تلاشی لینے کے مجاز ہوں گے۔ عام ہنگامی صورتحال کے دوران پولیس کو ایسے چھاپوں کی خاطر عدالت سے اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Edme
اہم مقامات پر مشتبہ افراد کی تلاشی
اس نئے قانون کے تحت سکیورٹی فورسزکو اجازت ہوگی کہ وہ ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کے دس کلو میٹر کے رداس میں موجود لوگوں سے شناختی دستاویزات طلب کر سکیں۔ اس اقدام کا مقصد سرحد پار جرائم کی شرح کو کم کرنا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Lecocq
عبادت گاہوں کی بندش
اس قانون کے تحت ریاست کو اجازت ہو گی کہ وہ کسی بھی ایسی عبادت گاہ کو بند کر دے، جہاں انتہا پسندانہ نظریات یا پروپیگنڈا کو فروغ دیا جا رہا ہو۔ ان عبادت گاہوں میں نفرت انگیزی اور امتیازی سلوک کی ترویج کی اجازت بھی نہیں ہو گی۔ ساتھ ہی تشدد پھیلانے کی کوشش اور دہشت گردی کی معاونت کے شبے میں عبادت گاہوں کو بند بھی کیا جا سکے گا۔
تصویر: picture-alliance/Godong/Robert Harding
ایونٹس کے دوران سخت سکیورٹی
اس نئے قانون کے تحت سکیورٹی فورسز کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ ایسے مقامات کے گرد و نواح میں واقع عمارات کی چیکنگ کی خاطر وہاں چھاپے مار سکیں اور مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کر سکیں، جہاں نزدیک ہی کوئی عوامی ایونٹ منعقد کرایا جا رہا ہو گا۔ اس کا مقصد زیادہ رش والے مقامات پر ممکنہ دہشت گردانہ کارروائیوں کی روک تھام کو ممکن بنانا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Samson
5 تصاویر1 | 5
فرانس
فرانس نے ابتدا میں اپوزیشن گروپوں کو طبی امداد کے ساتھ ساتھ ہتھیار فراہم کیے، تاہم سن 2015ء سے فرانس امریکی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد میں شامل ہے اور اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فضائی کارروائیوں کا حصہ ہے۔ فرانس نے پیرس میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد داعش کے خلاف فضائی کارروائیوں کا آغاز کیا تھا۔ پیرس حکومت کی خواہش ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کو شکست دی جائے۔ فرانس بشارالاسد کو اقتدار چھوڑنے کے مطالبات کرتا آیا ہے، تاہم پیرس حکومت کے بشارالاسد کے حوالے سے اس سخت موقف میں اب کسی حد تک نرمی دیکھی جا رہی ہے۔