روسی صدر ولادیمیر پوٹن بدھ کو ماسکو میں اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن سے ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات میں شام کا موضوع زیربحث آئے گا۔
اشتہار
انقرہ حکومت کے مطابق پوٹن اور ایردوآن کے درمیان ملاقات میں شام میں ’سکیورٹی زون‘ کے قیام کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ دونوں رہنما اس تنازعے میں دو متحارب فریقوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ روسی حکومت گزشتہ کئی برسوں سے شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی مدد میں مصروف ہے، جب کہ ترکی شامی باغیوں کی حمایت کرتا آیا ہے۔ تاہم اس اختلافی موقف کے باوجود دونوں ممالک شام میں قیام امن کے لیے سیاسی حل تلاش کرنے کی کوششوں کا حصہ بھی ہیں۔ روس اور ترکی نے اس سے قبل اتفاق کیا تھا کہ وہ شام سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد زمینی عسکری کارروائیوں میں اشتراک کریں گے۔ گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیرمتوقع طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ شام میں تعینات دو ہزار امریکی فوجیوں کو نکال رہے ہیں۔
پیر کے روز اپنے ایک خطاب میں ترک صدر ایردوآن نے کہا تھا کہ وہ صدر پوٹن کے ساتھ بات چیت میں ترکی کے زیرنگرانی تخلیق کیے جانے والے ’سکیورٹی زون‘ سے متعلق بات چیت کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے بھی شام کے شمالی حصے میں سکیورٹی زون کے قیام کا مشورہ دیا تھا۔
یہ بات اہم ہے کہ شمالی شام میں ترکی اور امریکا کے موقف کے درمیان بھی شدید اختلافات ہیں، جہاں امریکا کرد باغیوں کی حمایت کرتا ہے، تاہم ترکی کرد فورسز کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے دہشت گرد سمجھتا ہے۔
ماسکو جو ایک طویل عرصے سے صدر اسد کی حمایت میں مصروف ہے، ممکنہ طور پر اس ترک منصوبے کی مخالفت کرتے گا۔ گزشتہ ہفتے روسی وزیرخارجہ سیرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ دمشق حکومت کو ہر حال میں ملک کے شمالی حصے کا انتظام خود سنبھالنا چاہیے۔
دریائے ایورو، مہاجرین کے لیے موت کی گزرگاہ
ترکی اور یونان کے درمیان دریائے ایورو پار کر کے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے ہزاروں مہاجرین اس دریا میں ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی ماریانہ کراکولاکی نے الیگزندرو پولی میں مہاجرین کے ایک مردہ خانے کا دورہ کیا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
خطرناک گزرگاہ
دریائے ایورو ترکی اور یونان کے درمیان وہ خطرناک گزرگاہ ہے جسے برسوں سے ہزارہا تارکین وطن نے یورپ پہنچنے کی خواہش میں عبور کرتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیں۔ اس حوالے سے یہ بدنام ترین گزرگاہ بھی ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مردہ خانہ
رواں برس اب تک ترک یونان سرحد پر اس دریا سے انتیس افراد کی لاشیں ملی ہیں۔ مرنے والے مہاجرین کی بڑھتی تعداد کے باعث فلاحی تنظیم ریڈ کراس نے ایک سرد خانہ عطیے میں دیا ہے۔ اس مردہ خانے میں فی الحال پندرہ لاشیں موجود ہیں۔ دریا سے ملنے والی آخری لاش ایک پندرہ سالہ لڑکے کی تھی۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مرنے والوں کی تلاش
دریائے ایورو کے علاقے میں گشت کرنے والی انتظامیہ کی ٹیمیں یا پھر شکاری اور مچھیرے ان لاشوں کو دریافت کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی لاش ملتی ہے، سب سے پہلے پولیس آ کر تفتیش کرتی ہے اور تصاویر بناتی ہے۔ پھر اس لاش کو مردہ خانے لے جایا جاتا ہے جہاں طبی افسر پاؤلوس پاؤلیدیس اس سے ملنے والی باقیات اور ڈی این اے کی جانچ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت کا سبب
پاؤلوس پاؤلیدیس کا کہنا ہے کہ مہاجرین بنیادی طور پر ڈوب کر ہلاک ہوتے ہیں۔ پاؤلیدیس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ستر فیصد ہلاکتوں کا سبب پانی میں رہنے کے سبب جسمانی درجہ حرارت کا معمول سے نیچے ہو جانا تھا۔ پاؤلیدیس کے مطابق حال ہی میں ٹرینوں اور بسوں کے نیچے کچلے جانے سے بھی اموات واقع ہوئی ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ذاتی اشیا
پاؤلوس پاؤلیدیس مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی ذاتی نوعیت کی اشیا کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں سنبھال کر رکھتے ہیں تاکہ لاش کی شناخت میں مدد مل سکے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مشکل مگر لازمی فرض منصبی
مردہ مہاجرین سے ملنے والی نجی استعمال کی چیزوں کو پیک کرنا ایک بہت تکلیف دہ کام ہے۔ پاؤلوس کہتے ہیں کہ دریا سے ملنے والی ذاتی اشیا زیادہ تر ایسی ہوتی ہیں جنہیں پانی خراب نہیں کر سکتا۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
گمشدہ انگوٹھیاں
مہاجرین کی لاشوں سے ملنے والی زیادہ تر اشیاء دھات کی ہوتی ہیں جیسے انگوٹھیاں۔ گلے کے ہار اور بریسلٹ وغیرہ۔ کپڑے اور دستاویزات مثلاﹰ پاسپورٹ وغیرہ پانی میں تلف ہو جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت اور مذہب
پاؤلوس کے بقول ایسی اشیا بھی دریائے ایورو سے ملتی ہیں جو مرنے والے کے مذہب کے حوالے سے آگاہی دیتی ہیں۔ ایسی چیزوں کو حفاظت سے رکھ لیا جاتا ہے اور رجوع کرنے کی صورت میں اُس کے خاندان کو لوٹا دیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ابدی جائے آرام
اگر کسی مرنے والے مہاجر کی شناخت ہو جائے تو اس کی لاش اس کے لواحقین کو لوٹا دی جاتی ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو یونانی حکام ان لاشوں کی آخری رسوم اُن کے مذہب کے مطابق ادا کرانے کا انتظام کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
9 تصاویر1 | 9
شمالی شام سے امریکی فوج کے انخلا کے تناظر میں کرد فورسز کو ترک عسکری آپریشن کا براہ راست خطرہ تھا، اسی لیے ان کی جانب سے دمشق حکومت سے عسکری مدد طلب کی گئی۔ اس اپیل کے بعد شامی حکومت کی حامی فورسز شمالی شام میں کردوں کے زیرقبضہ علاقوں میں پہنچ چکی ہیں۔ روس نے بھی دمشق حکومت کی جانب سے فوج شمالی شام بھیجنے کا خیرمقدم کیا تھا۔
کہا جا رہا ہے کہ ماسکو حکومت شام کے موضوع پر سہ فریقی سربراہی اجلاس کے انعقاد کا منصوبہ بنا رہی ہے، جس میں ایران، ترکی اور روس کے صدور شریک ہوں گے۔ اس سے قبل یہ تینوں رہنما گزشتہ برس ستمبر میں ملے تھے۔