1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی تنازعے پر پوٹن اور ایردوآن کی بات چیت

23 جنوری 2019

روسی صدر ولادیمیر پوٹن بدھ کو ماسکو میں اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن سے ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات میں شام کا موضوع زیربحث آئے گا۔

Putin und Erdogan Eröffnung TurkStream
تصویر: Reuters/M. Sezer

انقرہ حکومت کے مطابق پوٹن اور ایردوآن کے درمیان ملاقات میں شام میں ’سکیورٹی زون‘ کے قیام کے موضوع پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ دونوں رہنما اس تنازعے میں دو متحارب فریقوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ روسی حکومت گزشتہ کئی برسوں سے شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی مدد میں مصروف ہے، جب کہ ترکی شامی باغیوں کی حمایت کرتا آیا ہے۔ تاہم اس اختلافی موقف کے باوجود دونوں ممالک شام میں قیام امن کے لیے سیاسی حل تلاش کرنے کی کوششوں کا حصہ بھی ہیں۔ روس اور ترکی نے اس سے قبل اتفاق کیا تھا کہ وہ شام سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد زمینی عسکری کارروائیوں میں اشتراک کریں گے۔ گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیرمتوقع طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ شام میں تعینات دو ہزار امریکی فوجیوں کو نکال رہے ہیں۔

شامی تنازعے کا خاتمہ: روس، ایران اور ترکی ’پہلے قدم‘ پر متفق

شام میں قیام امن کی کوشش، روسی اور ترک صدور کی ملاقات

پیر کے روز اپنے ایک خطاب میں ترک صدر ایردوآن نے کہا تھا کہ وہ صدر پوٹن کے ساتھ بات چیت میں ترکی کے زیرنگرانی تخلیق کیے جانے والے ’سکیورٹی زون‘ سے متعلق بات چیت کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے بھی شام کے شمالی حصے میں سکیورٹی زون کے قیام کا مشورہ دیا تھا۔

یہ بات اہم ہے کہ شمالی شام میں ترکی اور امریکا کے موقف کے درمیان بھی شدید اختلافات ہیں، جہاں امریکا کرد باغیوں کی حمایت کرتا ہے، تاہم ترکی کرد فورسز کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے دہشت گرد سمجھتا ہے۔

ماسکو جو ایک طویل عرصے سے صدر اسد کی حمایت میں مصروف ہے، ممکنہ طور پر اس ترک منصوبے کی مخالفت کرتے گا۔ گزشتہ ہفتے روسی وزیرخارجہ سیرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ دمشق حکومت کو ہر حال میں ملک کے شمالی حصے کا انتظام خود سنبھالنا چاہیے۔

شمالی شام سے امریکی فوج کے انخلا کے تناظر میں کرد فورسز کو ترک عسکری آپریشن کا براہ راست خطرہ تھا، اسی لیے ان کی جانب سے دمشق حکومت سے عسکری مدد طلب کی گئی۔ اس اپیل کے بعد شامی حکومت کی حامی فورسز شمالی شام میں کردوں کے زیرقبضہ علاقوں میں پہنچ چکی ہیں۔ روس نے بھی دمشق حکومت کی جانب سے فوج شمالی شام بھیجنے کا خیرمقدم کیا تھا۔

کہا جا رہا ہے کہ ماسکو حکومت شام کے موضوع پر سہ فریقی سربراہی اجلاس کے انعقاد کا منصوبہ بنا رہی ہے، جس میں ایران، ترکی اور روس کے صدور شریک ہوں گے۔ اس سے قبل یہ تینوں رہنما گزشتہ برس ستمبر میں ملے تھے۔

ع ت، ع ح (روئٹرز، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں