خدیجہ العوش کا تعلق رقہ سے ہے اور وہ شامی خانہ جنگی کا بدترین وقت دیکھ چکی ہیں، مگر بے گھروں کے ایک کمیپ میں مقیم پانچ بچوں کی والدہ العوش شدید سردی کی وجہ سے اپنا ایک سات سال بچہ کھو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
اشتہار
خانہ جنگی کی وجہ سے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہزاروں شامی باشندے مختلف مہاجر کیمپوں میں پلاسٹک کے خیموں یا تباہ حال عمارتوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور دوسری جانب ان افراد کو شدید سردی کا سامنا ہے۔
ان مہاجروں کو نہ تو گرم کپڑے دستیاب ہیں اور نہ ہی ہیٹنگ کا کوئی انتظام ہے، حتیٰ کہ ان کے پاس علاج معالجے تک کی سہولت میسر نہیں اور اس صورت حال میں سردی بھی ان کی اموات کا سبب بن رہی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے 35 سالہ خدیجہ العوش نے بتایا، ’’میرا بچہ سردی کی وجہ سے مر گیا۔‘‘
یونان کے پٹرول پمپ مہاجر کیمپ میں تبدیل
مقدونیا نے مہاجرین سے متعلق اپنی نئی پالیسی کے تحت سیاسی پناہ کی درخواستیں لینے کا عمل سست کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے یونان میں مہاجرین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور اس ملک کے پٹرول پمپ عارضی مہاجر کیمپ بن گئے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سنہرے کی بجائے سرمئی ’کمبل‘
سنہرے رنگ کے کمبل پناہ گزینوں کی ایک طرح سے پہچان بن گئے تھے تاہم اب اقوام متحدہ کی جانب سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین کو سردی سے محفوظ رکھنے کے لیے سرمئی رنگ کے کمبل دیے جا رہے ہیں۔ ابھی ہفتے کے روز ہی چار ہزار کے قریب مہاجرین یونان میں داخل ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اور سفر رک گیا
بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کی آمد کی وجہ سے مقدونیا نے سیاسی پناہ کی درخواستیں قبول کرنے میں نمایاں کمی کر دی ہے۔ اس پالیسی کے تحت سرکاری حکام مطلع کیے بغیر سرحدیں کھولتے اور بند کرتے ہیں۔ اس وجہ سے بہت سے لوگوں کو اکثر بارہ سے چوبیس گھنٹے سرحدوں پر بنائے جانے والے پٹرول پمپوں پر گزارنا پڑتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہنگامی ردعمل
تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز ’ایم ایس ایف‘ ایکو نامی پٹرول پمپ پر جمع ہونے والے پناہ گزینوں کی مدد کر رہی ہے۔ یہ پٹرول پمپ مقدونیا کی سرحد سے بیس کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ ایم ایس ایف ان افراد میں کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کر رہی ہے جبکہ انہیں طبی امداد بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سرد موسم اور طویل انتظار
شدید ٹریفک کی وجہ سے کبھی کبھی مہاجرین کو چوبیس گھنٹوں سے زائد پٹرول پمپس پر گزارنے پڑتے ہیں۔ ایم ایس ایف کے مطابق شدید سردی سے بچنے کے لیے متعدد پناہ گزینوں کو بند بسوں کے نیچے ان حصوں میں راتیں بسر کرنا پڑ رہی ہیں، جو سامان کے لیے مخصوص ہوتے ہیں۔ ’’بس ڈرائیور اکثر پناہ گزینوں کو راتوں میں تنہا چھوڑ کر قریبی ہوٹلوں میں سونے چلے جاتے ہیں‘‘۔
تصویر: DW/D. Cupolo
پندرہ روزہ بچہ اور منفی آٹھ درجہ حرارت
یورپ کی جانب سفر کرنے والوں میں بڑی تعداد ان ماؤں کی بھی ہے، جن کے ساتھ ان کے نومولود بچے بھی ہیں۔ ’سیو دی چلڈرن‘ کے مطابق یونانی گاؤں ایڈومینے کے قریب پندرہ روز قبل پیدا ہونے والے ایک بچے کو منفی آٹھ درجہ حرارت میں کھلے آسمان تلے رات بسر کرنا پڑی۔ اس تنظیم کی سیلین گیگنے کے مطابق ایڈومینے میں ایسے ٹینٹ موجود تھے، جہاں سردی سے بچنے کا انتظام تھا ’ لیکن ان لوگوں کو وہاں رکنے کی اجازت نہیں دی گئی۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
برداشت سے باہر
یہ تصویر عراقی مسیحی نوجوان ڈینیئل اسدزادے اور اس کے دوستوں کی ہے۔ اسد زادے کے بقول’’ یہ لوگ صبح پانچ بجے اس پٹرول پمپ پر پہنچے تھے اور اس سے قبل کی رات وہ کسی اور پٹرول پمپ پر گزار کر آئے تھے۔‘‘ وہ کہتے ہیں:’’میں اب ایسا مزید نہیں کر سکتا۔ جرمنی پہنچ کر سب سے پہلے میں غسل کروں گا۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
سرحد پر عبادت
اسد زادے کے مطابق اس نے مقدونیا کے لیے بس والے کو تقریباً 42 یورو ادا کیے۔ اس کے بقول وہ لگ بھگ چار ہزار یورو دے کر یونان پہنچا ہے:’’اب میرے پاس بہت کم رقم بچی ہے۔ میں تنہا ہی اس صورتحال کا شکار نہیں ہوں بلکہ اور بھی خاندان ہیں، جو بغیر پیسوں کے سفر کر رہے ہیں۔ ہمیں مخصوص پٹرول پمپوں پر روکا جاتا ہے، جہاں سے ہمیں لازمی طور پر چیزیں خریدنی ہوتی ہیں۔ اب ہمیں سرحد پر ہی عبادت کرنی پڑ رہی ہے۔ ‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
چیزیں خریدو گے تو پناہ ملے گی
یہ ایک افغان شہری ہے، جس کے پاس نقد رقم نہیں ہے۔ اسے پٹرول پمپ سے باہر نکلنے کے لیے کہا گیا ہے۔ تاہم جو لوگ پٹرول پمپوں سے چیزیں خریدتے ہیں انہیں اُس جگہ انتظار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، جہاں کھانا کھایا جاتا ہے۔ پٹرول پمپ کے مالک کے مطابق ’’پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے کاروبار میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ لوگ چیزوں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
آگ کے لیے گیارہ ٹن لکڑی
یونانی امدادی کارکن گے اورگ اور سمانتھا پاپاس ڈاکٹروز ود آؤٹ بارڈرز کی امداد کو استعمال کرتے ہوئے اُن علاقوں میں جلانے کے لیے لکڑی مہیا کر رہے ہیں، جہاں پناہ گزین موجود ہیں۔ یہ ایکو کے پٹرول پمپ کے باہر کی تصویر ہے۔ اتوار کے روز یہاں لکڑیوں کی تیسری اور آخری کھیپ پہنچائی گئی۔ سمانتھا کے مطابق ایک ٹرک پر لدی گیارہ ٹن لکڑی کی قمیت تقریباً ایک ہزار یورو ہوتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
محدود وسائل
ایڈومینے نامی علاقے میں قائم ایکو پٹرول پمپ پر اتوار کے روز دو ہزار سے زائد افراد نے رات بسر کی۔ سیو دی چلڈرن کی سیلین گیگنے کہتی ہیں کہ یونان میں مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے یہ ایک عام سی بات بنتی جا رہی ہے ۔’’میں اور میرا عملہ ان لوگوں کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
10 تصاویر1 | 10
انہوں نے بتایا کہ وہ داعش کے مضبوط گڑھ الرقہ میں لڑائی شروع ہونے کے بعد اپنے بچوں کے ہم راہ علاقے سے نکلیں تھیں اور عین العیسیٰ نامی مہاجر کیمپ تک پہنچی تھیں۔ یہ مہاجر بستی الرقہ سے 50 کلومیٹر دور ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رات کے اوقات میں یہاں درجہ حرارت چار ڈگری تک پہنچ جاتا ہے اور ان کے پاس نہ گرم لباس ہے اور نہ ہیٹنگ کا کوئی انتظام۔
العوش کے مطابق، ’’وہ کھانستا رہا اور نصف شب کے وقت اسے شدید بخار ہو گیا۔ اگلے روز وہ فوت ہو گیا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے العوش نے اپنے باقی چار بچے اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیے۔ ’’خدا ہمیں اس سردی سے محفوظ رکھے۔‘‘
شدید سردی، مشرقی یورپ میں مہاجرین کا کیا ہو گا؟
03:19
This browser does not support the video element.
یہ بات اہم ہے کہ قریب 17 ہزار افراد اس وقت عین العیسیٰ کی مہاجر بستی میں مقیم ہیں اور اس مقام پر مجموعی طور پر ڈھائی ہزار ٹینٹ نصب ہیں۔ یہاں موجود افراد میں سے زیادہ تر وہ ہیں جو الرقہ سے فرار ہو کر یہاں پہنچے تھے۔ دیرالزور صوبے کا علاقہ الرقہ کئی برس تک شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کا مضبوط ترین مرکز رہا تھا جب کہ یہ خودساختہ خلافت اسے اپنا دارالخلافہ بھی قرار دیتی تھی۔