شام میں سات برس سے جاری خانہ جنگی میں مغربی ممالک نے مداخلت کرنے کے کئی مواقع گنوائے۔ ایسے تنازعات کے حل میں موثر کردار ادا کرنے کے لیے مغرب کو اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھنا ہو گا۔ ڈی ڈبلیو کے کیرسٹن کِنپ کا تبصرہ۔
اشتہار
شامی جنگ سے متعلق ’اگر یوں یوتا تو۔۔۔‘ کے ساتھ کئی سوالات جڑے ہوئے ہیں اور ان میں اکثر کا تعلق مغربی ممالک کے اس جنگ میں کردار سے متعلق ہیں۔ اگر مغرب اس تنازعے میں پہلے مداخلت کرتا تو شامی جنگ کیا رخ اختیار کرتی؟
موجودہ صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو ماضی میں مغرب نے شامی تنازعہ حل کرنے کے کئی سنہری مواقع گنوائے۔ مثال کے طور پر سن 2013 میں جب یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ شامی صدر بشار الاسد اپنے عوام کے خلاف طاقت کے استعمال میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال بھی کر سکتے ہیں، تب امریکی صدر اوباما نے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو ’سرخ لکیر‘ قرار دیتے ہوئے اسد حکومت کو خبردار کیا تھا کہ ایسی صورت میں مغرب ان کے خلاف طاقت کا استعمال کر سکتا ہے۔
لیکن پھر یوں ہوا کہ اسد حکومت نے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے اور امریکا اور مغربی ممالک نے پھر بھی شام میں عسکری مداخلت سے گریز کیا۔
نیٹو اتحادی بمقابلہ روس: طاقت کا توازن کس کے حق میں؟
نیٹو اتحادیوں اور روس کے مابین طاقت کا توازن کیا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو نے آئی آئی ایس ایس سمیت مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ تفصیلات دیکھیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: REUTERS
ایٹمی میزائل
روس کے پاس قریب اٹھارہ سو ایسے میزائل ہیں جو ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر ایسے 2330 میزائل ہیں جن میں سے دو ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo
فوجیوں کی تعداد
نیٹو اتحادیوں کے پاس مجموعی طور پر قریب پیتنس لاکھ فوجی ہیں جن میں سے ساڑھے سولہ لاکھ یورپی ممالک کی فوج میں، تین لاکھ بیاسی ہزار ترک اور قریب پونے چودہ لاکھ امریکی فوج کے اہلکار ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی فوج کی تعداد آٹھ لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PAP/T. Waszczuk
ٹینک
روسی ٹینکوں کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار ہے جب کہ نیٹو ممالک کے مجموعی ٹینکوں کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ترک اور چھ ہزار امریکی فوج کے ٹینک بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/F. Kästle
ملٹی راکٹ لانچر
روس کے پاس بیک وقت کئی راکٹ فائر کرنے والے راکٹ لانچروں کی تعداد اڑتیس سو ہے جب کہ نیٹو کے پاس ایسے ہتھیاروں کی تعداد 3150 ہے ان میں سے 811 ترکی کی ملکیت ہیں۔
تصویر: Reuters/Alexei Chernyshev
جنگی ہیلی کاپٹر
روسی جنگی ہیلی کاپٹروں کی تعداد 480 ہے جب کہ نیٹو اتحادیوں کے پاس تیرہ سو سے زائد جنگی ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان میں سے قریب ایک ہزار امریکا کی ملکیت ہیں۔
تصویر: REUTERS
بمبار طیارے
نیٹو اتحادیوں کے بمبار طیاروں کی مجموعی تعداد چار ہزار سات سو کے قریب بنتی ہے۔ ان میں سے قریب اٹھائیس سو امریکا، سولہ سو نیٹو کے یورپی ارکان اور دو سو ترکی کے پاس ہیں۔ اس کے مقابلے میں روسی بمبار طیاروں کی تعداد چودہ سو ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
لڑاکا طیارے
روس کے لڑاکا طیاروں کی تعداد ساڑھے سات سو ہے جب کہ نیٹو کے اتحادیوں کے لڑاکا طیاروں کی مجموعی تعداد قریب چار ہزار بنتی ہے۔ ان میں سے تئیس سو امریکی اور ترکی کے دو سو لڑاکا طیارے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
طیارہ بردار بحری بیڑے
روس کے پاس صرف ایک طیارہ بردار بحری بیڑہ ہے اس کے مقابلے میں نیٹو اتحادیوں کے پاس ایسے ستائیس بحری بیڑے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/newscom/MC3 K.D. Gahlau
جنگی بحری جہاز
نیٹو ارکان کے جنگی بحری جہازوں کی مجموعی تعداد 372 ہے جن میں سے پچیس ترک، 71 امریکی، چار کینیڈین جب کہ 164 نیٹو کے یورپی ارکان کی ملکیت ہیں۔ دوسری جانب روس کے عسکری بحری جہازوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔
نیٹو اتحادیوں کی ملکیت آبدوزوں کی مجموعی تعداد ایک سو ساٹھ بنتی ہے جب کہ روس کے پاس ساٹھ آبدوزیں ہیں۔ نیٹو ارکان کی ملکیت آبدوزوں میں امریکا کی 70 اور ترکی کی 12 آبدوزیں ہیں جب کہ نیٹو کے یورپی ارکان کے پاس مجموعی طور پر بہتر آبدوزیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Bager
دفاعی بجٹ
روس اور نیٹو کے دفاعی بجٹ کا موازنہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ روس کا دفاعی بجٹ محض 66 بلین ڈالر ہے جب کہ امریکی دفاعی بجٹ 588 بلین ڈالر ہے۔ نیٹو اتحاد کے مجموعی دفاعی بجٹ کی کل مالیت 876 بلین ڈالر بنتی ہے۔
تصویر: picture alliance/chromorange
11 تصاویر1 | 11
’اوباما کی سرخ لکیر‘
اب یوں لگتا ہے کہ اس وقت امریکا اور مغربی اتحادیوں نے شام میں مداخلت نہ کر کے اسد حکومت کو محدود کرنے کا موقع گنوا دیا۔ اس وقت اسد کو روس اور ایران کا ویسا تحفظ اور حمایت حاصل نہیں تھی، جیسی کہ اب ہے اور تب شام میں مغرب کی مداخلت ممکنہ طور پر کارگر ثابت ہو سکتی تھی۔ لیکن اوباما نے یہ موقع ضائع کر دیا۔
اوباما کے شام میں مداخلت نہ کرنے کے اس فیصلے کی وجوہات بھی تھیں۔ امریکا افغانستان اور بعد ازاں عراق میں جنگ شروع کر چکا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی عسکری مداخلت کی بنیاد دانستہ طور پر بولے گئے جھوٹ پر مبنی تھی جس کی وجہ سے امریکا کا تشخص بری طرح سے مجروح تھا اور شام میں عسکری مداخلت اخلاقی اور سیاسی طور پر امریکا کی عالمی ساکھ کو مزید خراب کر سکتی تھی۔
علاوہ ازیں عسکری مداخلت سے وابستہ اسٹریٹجگ خطروں کا اندازہ لگانا بھی مشکل کام تھا۔ مغربی اتحادیوں کی عسکری مداخلت کے اسد پر کیا اثرات مرتب ہوتے؟ روس اور ایران کا ردِ عمل اس وقت کیسا ہوتا؟ ایسے فیصلے کے بعد مسلم اکثریتی ممالک میں امریکا مخالف جذبات کتنے بڑھتے، شیعہ اور سنی مسلمانوں کا ردِ عمل کیا ہوتا؟ اور پھر عسکری مداخلت کے بعد امریکا اور یورپ میں دہشت گردانہ حملوں کا خطرہ بھی کس قدر بڑھ جاتا؟
'جمود کی قیمت‘
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شام میں مغربی عسکری مداخلت کے ممکنہ طور پر بھیانک نتائج نکل سکتے تھے۔ لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو مداخلت نہ کرنے کے نتائج بھی کوئی اچھے نہیں نکلے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ روس اور ایران شامی تنازعے میں کھل کر سامنے آ چکے ہیں۔ روس کے فریق بننے کے بعد اب مغرب کے لیے تصادم سے بچے بغیر مداخلت کرنے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔
اسی لیے اب واشنگٹن اور یورپی رہنماؤں کے اسد کے اقتدار سے الگ ہو جانے کے مطالبے زبانی جمع خرچ سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ مغرب شام میں کیا چاہتا ہے اور کیا نہیں چاہتا، اب ان باتوں کا شام کے زمینی حقائق پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
’باغیوں کی مدد یا جہادیوں کی‘
امریکا نے شامی خانہ جنگی شروع ہونے سے پہلے ہی مبینہ طور پر بشار الاسد کو اقتدار سے الگ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا جس سے شام افراتفری کا شکار ہو سکتا تھا۔ اس مبینہ منصوبے کے باعث بھی شام میں امریکی مداخلت کی نیت مشکوک ہو چکی تھی۔
حلب: ایک شاندار شہر تاراج ہوا
جنگ سے پہلے حلب شمالی شام کا ایک بارونق اور ہنستا بستا شہر تھا، جو شام کا اقتصادی مرکز اور سیاحوں میں بے حد مقبول تھا۔ موازنہ دیکھیے کہ کھنڈر بن چکے مشرقی حلب کے کئی مقامات پہلے کیسے تھے اور اب کس حال میں ہیں۔
اموی جامع مسجد پہلے
سن 2010ء میں ابھی اُس باغیانہ انقلابی تحریک نے حلب کی جامع الاموی کے دروازوں پر دستک نہیں دی تھی، جو تب پوری عرب دُنیا میں بھڑک اٹھی تھی۔ یہ خوبصورت مسجد سن 715ء میں تعمیر کی گئی تھی اور یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
اموی جامع مسجد آج
سن 2013ء کی جھڑپوں کے نتیجے میں اس مسجد کو شدید نقصان پہنچا۔ چوبیس مارچ سن 2013ء کو اس مسجد کا گیارہویں صدری عیسوی میں تعمیر ہونے والا مینار منہدم ہو گیا۔ آج یہ مسجد ایک ویران کھنڈر کا منظر پیش کرتی ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حمام النحاسین پہلے
حلب شہر کے قدیم حصے میں واقع اس حمام میں 2010ء کے موسمِ خزاں میں لوگ غسل کے بعد سکون کی چند گھڑیاں گزار رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
حمام النحاسین آج
چھ سال بعد اس حمام میں سکون اور آرام نام کو نہیں بلکہ یہاں بھی جنگ کے خوفناک اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قلعہ پہلے
حلب کا یہ قلعہ دنیا کے قدیم ترین اور سب سے بڑے قلعوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس کے اندر واقع زیادہ تر عمارات تیرہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئیں۔
تصویر: Reuters/S. Auger
حلب کا قلعہ آج
ایک دور تھا کہ بڑی تعداد میں سیاح اس قلعے کو دیکھنے کے لیے دور دور سے جایا کرتے تھے۔ اب جنگ کے نتیجے میں اس کا بڑا حصہ تباہ و برباد ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ پہلے
چوبیس نومبر 2008ء: حلب شہر کا قدیم حصہ۔ لوگ رنگ برنگی روشنیوں کے درمیان ایک کیفے میں بیٹھے ہیں۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
حلب کا قدیم علاقہ آج
تیرہ دسمبر 2016ء: حلب شہر کا قدیم علاقہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) پہلے
یہ تصویر دسمبر 2009ء کی ہے۔ حلب کے مشہور ڈیپارٹمنٹل اسٹور شھباء مول کی چھت سے کرسمس کے تحائف لٹک رہے ہیں۔ اس پانچ منزلہ ڈیپارٹمنٹل اسٹور کا افتتاح 2008ء میں ہوا تھا اور اس کا شمار ملک کے سب سے بڑے اسٹورز میں ہوتا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Ashawi
شھباء مول (ڈیپارٹمنٹل اسٹور) آج
آج جو کوئی بھی گوگل میں شھباء مول کے الفاظ لکھتا ہے تو جواب میں اُسے یہ لکھا نظر آتا ہے: ’مستقل طور پر بند ہے۔‘‘ اس اسٹور کو 2014ء میں کی جانے والی بمباری سے شدید نقصان پہنچا تھا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار پہلے
یہ تصویر 2008ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے ایک بازار کا داخلی دروازہ روشنیوں سے جگمگا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
قدیم حلب کا ایک خوبصورت بازار آج
یہ تصویر دسمبر 2016ء کی ہے، جس میں قدیم حلب کے اس مشہور بازار کا داخلی دروازہ تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
12 تصاویر1 | 12
شامی تنازعے کے شروع میں بھی انہی وجوہات کے باعث امریکا اور مغربی اتحادی متذبب دکھائی دے رہے تھے۔ یہ ممالک شامی باغیوں کی حمایت اور معاونت بھی کرنا چاہتے تھے لیکن ساتھ میں یہ خطرہ بھی تھا کہ کہیں غلطی سے وہ جہادیوں کو اسلحہ نہ فراہم کر بیٹھیں۔
اسی پالیسی کے باعث شام میں ایک نہیں کئی اپوزیشن اور باغی گروہوں نے جنم لیا جس کے باعث خانہ جنگی ختم ہونے کے بجائے پھیلتی چلی گئی۔ جس کے نتیجے میں صرف باغی اور جہادی ہی نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں عام شہری بھی مارے گئے۔ شام میں ایسی تباہی اور ایسے بھیانک مناظر سامنے آئے جن کی مثال حالیہ عالمی تاریخ کسی اور جنگ میں نہیں ملتی۔
'محض بیان بازی سے کام نہیں چلے گا‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان غلطیوں سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ مغرب کی ناپختہ عسکری مداخلت کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، وہ ہم لیبیا اور عراق میں دیکھ چکے ہیں۔ یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ مغرب اب کسی طویل مدتی اور تعمیری عسکری کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔
مغربی ممالک شام میں عسکری کارروائیوں کو روس اور ایران کے ہاتھوں میں بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ اب شامی صورت حال میں بہتری کے لیے مغرب کے کردار کا قصہ ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ مغرب کو لیکن اب یہ ضرور سیکھنا ہو گا کہ آئندہ کسی تنازعے میں جب وہ کسی ملک یا آمر کو خبردار کریں تو اس کے ساتھ ساتھ انہیں عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں کیا ردِ عمل دکھانا ہے، اس بات پر بھی پوری تیاری کے ساتھ ایک جامع لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔
یا دوسری صورت میں انہیں کسی بھی معاملے میں مداخلت کرنے سے باز رہنا چاہیے۔ محض بیان جاری کرنے کا زمانہ گزر چکا، ان باتوں سے تنازعات حل نہیں ہوتے، مزید بگڑ جاتے ہیں۔
’شام کی وہ دوزخ، جس کا ایندھن بچے ہیں‘
شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج، باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں چار لاکھ سے زائد شہری محصور ہیں اور تقریبا ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
مشرقی غوطہ میں طبی امداد فراہم کرنے والی تنظیم سیرئین سول ڈیفنس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اسد کی حامی فورسز نے بمباری کے دوران کلورین گیس کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور متاثرہ افراد کو سانس لینے مین دشواری کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
آزاد ذرائع سے کلورین گیس کے استعمال کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اس کی حمایت یافتہ فورسز یہ زیریلی گیس استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر قائم اس ’جہنم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘۔
تصویر: picture alliance/AA/Q. Nour
زیر محاصرہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں شدید فضائی حملوں کے بعد وہاں پھنسے عام شہری امداد اور طبی مدد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
گزشتہ ایک ہفتے میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے مشرقی غوطہ پر کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سلامتی کونسل نے شام میں 30 روزہ فائربندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فائربندی پر عمل درآمد ’بلاتاخیر‘ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود روسی طیاروں نے ہفتے کے ہی روز مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آبزرویٹری نے مزید بتایا کہ ہلاک شدگان میں 127 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
شامی خانہ جنگی سے متعلق صلاح و مشورے کے لیے آج پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ وزرائے خارجہ یہ طے کریں گے کہ کس طرح مشرقی غوطہ میں ظلم و تشدد کے شکار شہریوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/B.Khabieh
سلامتی کونسل کی قرارداد میں تیس روزہ فائر بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران امدادی سامان کی ترسیل اور شدید زخمیوں کو متاثرہ علاقوں سے باہر نکالا جائے گا۔ اس قرارداد میں شامی باغیوں کے گڑھ مشرقی غوطہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
مشرقی غوطہ دو مسلم گروپوں میں منقسم ہے اور وہاں شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ بھی سرگرم ہے۔ روس نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی تھی تاکہ وہاں موجود باغی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل جائیں، بالکل اسی طرح جیسا 2016ء میں حلب میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم غوطہ میں تمام باغی تنظیموں نے اس روسی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Al-Bushy
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان رہنماؤں نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فائربندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al-Bushy
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران اس علاقے میں کم از کم پانچ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ ان حملوں کے بعد کئی ہسپتال معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل نہ رہے۔
تصویر: picture alliance/AA/K. Akasha
ان حملوں کے حوالے سے شامی حکومتی افواج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن اسد حکومت اکثر یہی کہتی ہے کہ سرکاری افواج کی طرف سے صرف باغیوں اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/Syrian Civil Defense White Helmets
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس نے شام میں ان تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔