شامی جنگ کے لیے ’ ایران میں افغان مہاجرین کی بھرتی‘
16 مئی 2014![](https://static.dw.com/image/17429845_800.webp)
واشنگٹن سے ملنے والی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وال سٹریٹ جرنل نے انکشاف کیا ہے کہ اس بھرتی کی ایران میں افغان مہاجرین کے ذرائع اور مغربی ملکوں کے حکام دونوں نے تصدیق کر دی ہے۔ اس بھرتی کے بدلے تہران حکومت کی طرف سے افغان مہاجرین کو مبینہ طور پر ایران میں رہائش کے قانونی اجازت ناموں اور 500 امریکی ڈالر ماہانہ تک کے برابر مالی معاوضوں کی پیشکش کی جا رہی ہے۔
شام میں خانہ جنگی اس وقت اپنے چوتھے سال میں ہے اور شیعہ اکثریتی آبادی والا ملک ایران، شامی صدر بشار الاسد کا کلیدی اتحادی ہے۔ اس کے برعکس اسد حکومت کو اپنے خلاف اپوزیشن کے جن مسلح عسکریت پسندوں کی بغاوت کا سامنا ہے، وہ زیادہ تر سنی عقیدے سے تعلق رکھنے والے مسلمان ہیں۔
وال سٹریٹ جرنل نے جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب اپنی ویب سائٹ پر شائع کردہ ایک رپورٹ میں لکھا کہ شامی خانہ جنگی کے لیے ایران میں افغان مہاجرین کی بھرتی کا کام تہران کے پاسدارانِ انقلاب کے دستوں کی طرف سے کیا جا رہا ہے اور اس کی تفصیلات اسی ہفتے ایک ایسے بلاگ میں شائع ہوئیں جس کے مخاطب ایران میں پناہ گزین افغان مہاجرین ہوتے ہیں۔ ایران میں پناہ گزین افغان مہاجرین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
اس امریکی جریدے نے لکھا ہے کہ اس عسکری بھرتی کی آیت اللہ محقق کابلی کے دفتر نے بھی تصدیق کر دی ہے، جو افغانستان کے ایک سرکردہ مذہبی رہنما ہیں اور شیعہ مسلمانوں کی طرف سے انتہائی اہم سمجھے جانے والے ایرانی شہر قُم میں مقیم ہیں۔
وال سٹریٹ جرنل نے ایرانی دارالحکومت میں مقیم ایک مغربی سفارتی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ایران جن افغان مہاجرین کو بھرتی کر رہا ہے، وہ تہران کی ان کوششوں کا حصہ ہے، جن کا مقصد اسد حکومت کو محاذ جنگ پر اگلی صفوں میں لڑنے والے پیدل سپاہی مہیا کرنا ہے۔
اس مغربی اہلکار کے بقول اس بھرتی کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ شام کی خانہ جنگی میں ایران کے انقلابی گارڈز اور لبنان کی حزب اللہ ملیشیا کو پہنچنے والے جانی نقصان میں کمی کی جا سکے۔ مشرق وسطیٰ میں لبنان کی حزب اللہ ملیشیا ایران کی بہت بڑی اتحادی ہے اور شام میں اس ملیشیا کے بہت سے ارکان اسد حکومت کی فوجوں کے شانہ بشانہ باغیوں کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں۔
تہران حکومت کی طرف سے ایسے الزامات کی بھرپور تردید کی جاتی ہے کہ اس کے فوجی دستے شام کے خونریز تنازعے میں کسی بھی سطح پر براہ راست شامل ہیں۔ لیکن حزب اللہ کی طرف سے گزشتہ برس اپریل میں کھل کر یہ اعتراف کیا گیا تھا کہ اس کے جنگجو دمشق حکومت کے دستوں کے ساتھ مل کر شامی جنگ میں حصہ لے رہے ہیں۔
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق زیادہ تر ایرانی باشندوں اور حزب اللہ کے ارکان کی طرح نئے بھرتی کیے جانے والے افغان مہاجرین بھی شیعہ ہیں، جو علوی عقیدے سے تعلق رکھنے والے بشار الاسد کی حکومت کی حمایت میں شامی اپوزیشن کے مسلح سنی ارکان کے ساتھ لڑائی کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں۔ علوی فرقہ شیعہ مسلمانوں ہی کا ایک ذیلی فرقہ ہے۔