آج دنيا کو ايک عالمگير وبا کا سامنا ہے، عالمی سطح پر بے چينی پائی جاتی ہے اور خبروں کا بازار گرم ہے۔ ايسے ميں شامی جنگ کو ياد رکھنا مشکل کام ہے مگر نو برس قبل شروع ہونے والی يہ جنگ آج بھی جاری ہے۔
اشتہار
پندرہ مارچ 2011ء کے دن جب شامی شہری اپنی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلے تھے، انہيں قطعی يہ اندازہ نہيں تھا کہ ان کا يہ احتجاج باقاعدہ جنگ کی شکل اختيار کر لے گا اور اس پيچيدہ جنگ ميں حکومتی فورسز، باغی، جہادی، غير ملکی قوتيں اور کئی مليشياز ايک دوسرے کے خلاف برسرپيکار ہوں گے۔ اس جنگ کو شروع ہوئے نو برس ہو چکے ہيں اور آج سے دسواں سال شروع ہو گيا ہے۔ اس دوران کم از کم 384,000 افراد ہلاک ہوئے، جن ميں سے 116,000 شہری تھے۔ اس مسلح تنازعے کے باعث لگ بھگ گيارہ ملين شامی شہری بے گھر ہو چکے ہيں، جو ميں سے کئی بيرون ملک ميں پناہ گزينوں کے طور پر زندگياں بسر کر رہے ہيں تو لاکھوں اپنے ہی ملک ميں کيمپوں ميں وقت گزار رہے ہيں۔
ہالہ ابراہيم ادلب کے شہر دانا ميں رہتی ہيں۔ ابراہيم کا تعلق حلب سے ہے مگر جب سن 2016 ميں صدر بشار الاسد کی حامی فورسز نے اس شہر پر قبضہ کيا، تو انہيں اپنا سب کچھ چھوڑ کر دانا ميں پناہ لينا پڑی، ''مجھے اپنی يونيورسٹی اور اپنا گھر چھوڑنا پڑ گيا تھا کيونکہ يہ سب بمباری ميں تباہ ہو چکے تھے۔‘‘ ابراہيم کے بقول نو سال کے انقلاب اور جنگ سے انہيں تکليف کے سوا کچھ نہيں ملا۔
ايرانی مليشياز، روسی عسکری معاونت اور لبنانی شيعہ عسکری تنظيم حزب اللہ کی مدد سے شامی صدر بشار الاسد اب ملک کے لگ بھگ ستر فيصد حصے پر کنٹرول بحال کر چکے ہيں۔ ان دنوں اسد فورسز نے ملک کے شمال مغربی حصے ميں کارروائياں جاری رکھی ہوئی ہيں۔
’شام کی وہ دوزخ، جس کا ایندھن بچے ہیں‘
شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج، باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس علاقے میں چار لاکھ سے زائد شہری محصور ہیں اور تقریبا ساڑھے پانچ سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
مشرقی غوطہ میں طبی امداد فراہم کرنے والی تنظیم سیرئین سول ڈیفنس نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر اسد کی حامی فورسز نے بمباری کے دوران کلورین گیس کا استعمال کیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں بچے ہلاک ہو رہے ہیں اور متاثرہ افراد کو سانس لینے مین دشواری کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
آزاد ذرائع سے کلورین گیس کے استعمال کی فی الحال تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ روس نے اس الزام کو مسترد کیا ہے کہ اس کی حمایت یافتہ فورسز یہ زیریلی گیس استعمال کر رہی ہیں۔
تصویر: picture alliance/AA/Syrian Civil Defence
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زمین پر قائم اس ’جہنم کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے‘۔
تصویر: picture alliance/AA/Q. Nour
زیر محاصرہ شامی علاقے مشرقی غوطہ میں شدید فضائی حملوں کے بعد وہاں پھنسے عام شہری امداد اور طبی مدد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے فائربندی کے مطالبے کے باوجود علاقے میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
گزشتہ ایک ہفتے میں شامی صدر بشارالاسد کی حامی فورسز کی جانب سے مشرقی غوطہ پر کی جانے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اب تک پانچ سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز سلامتی کونسل نے شام میں 30 روزہ فائربندی کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ فائربندی پر عمل درآمد ’بلاتاخیر‘ کیا جائے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
سیریئن آبزرویٹری کے مطابق سلامتی کونسل کی قرارداد کے باوجود روسی طیاروں نے ہفتے کے ہی روز مشرقی غوطہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔ آبزرویٹری نے مزید بتایا کہ ہلاک شدگان میں 127 بچے بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
شامی خانہ جنگی سے متعلق صلاح و مشورے کے لیے آج پیر کے روز یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کا ایک اہم اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ وزرائے خارجہ یہ طے کریں گے کہ کس طرح مشرقی غوطہ میں ظلم و تشدد کے شکار شہریوں کی بہتر طریقے سے مدد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/B.Khabieh
سلامتی کونسل کی قرارداد میں تیس روزہ فائر بندی کی بات کی گئی ہے۔ اس دوران امدادی سامان کی ترسیل اور شدید زخمیوں کو متاثرہ علاقوں سے باہر نکالا جائے گا۔ اس قرارداد میں شامی باغیوں کے گڑھ مشرقی غوطہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al Bushy
مشرقی غوطہ دو مسلم گروپوں میں منقسم ہے اور وہاں شام میں القاعدہ کی مقامی شاخ بھی سرگرم ہے۔ روس نے باغیوں کے ساتھ بات چیت کی پیشکش کی تھی تاکہ وہاں موجود باغی اپنے اہل خانہ کے ساتھ شہر سے باہر نکل جائیں، بالکل اسی طرح جیسا 2016ء میں حلب میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تاہم غوطہ میں تمام باغی تنظیموں نے اس روسی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/AA/A. Al-Bushy
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے اتوار کو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ٹیلی فون پر بات کی۔ ان رہنماؤں نے پوٹن سے اپیل کی کہ وہ شامی حکومت پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے فائربندی پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔
تصویر: picture alliance/abaca/A. Al-Bushy
اقوام متحدہ کے ذرائع کے مطابق ان حملوں کے دوران اس علاقے میں کم از کم پانچ ہسپتالوں پر بھی بمباری کی گئی۔ ان حملوں کے بعد کئی ہسپتال معمول کے مطابق کام کرنے کے قابل نہ رہے۔
تصویر: picture alliance/AA/K. Akasha
ان حملوں کے حوالے سے شامی حکومتی افواج کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا لیکن اسد حکومت اکثر یہی کہتی ہے کہ سرکاری افواج کی طرف سے صرف باغیوں اور جنگجوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP/Syrian Civil Defense White Helmets
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک فرانس نے شام میں ان تازہ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
13 تصاویر1 | 13
ادلب ميں حکومتی آپريشن کے باعث بے گھر ہونے والے سينکڑوں لوگ کيمپوں، مساجد، کھلے ميدانوں، اسکولوں اور زير تعمير عمارات ميں گزر بسر کرنے پر مجبور ہيں۔ سيہام عبس اپنے سات بچوں کے ہمراہ ادلب ميں بردا قلی کے مقام پر ايک کيمپ ميں گزر بسر کر رہی ہيں،''ميں پچاس برس کی ہوں۔ ايسی تکليف ميں نے اپنی پوری زندگی ميں کبھی نہيں ديکھی۔‘‘
اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل انٹونيو گوٹيرش نے اسی ہفتے اپنے ايک ٹوئٹر پيغام ميں لکھا تھا، ''شام ميں ايک دہائی سے جاری لڑائی سے تباہی اور مصائب کے سوا کچھ حاصل نہيں ہوا۔‘‘ انہوں نے مزيد لکھا کہ شامی تنازعے کا کوئی فوجی حل نہيں اور اس ضمن ميں سفارت کاری کو موقع دينا چاہيے۔ تاہم ايسی کئی کوششيں بھی ناکام ہو چکی ہيں۔
اقوام متحدہ نے دو برس يہ اندازہ لگايا تھا کہ شامی جنگ اب تک چار سو بلين ڈالر ماليت کے مالی نقصانات کا سبب بنی ہے۔ جانی نقصان کا اندازہ تو ممکن ہی نہيں۔
شامی تنازعہ میں برسر پیکار قوتیں
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں سن 2011ء کے عرب اسپرنگ کے بعد شام میں خانہ جنگی کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے دنیا کے مختلف حریف گروہوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت شام میں کون سی قوتیں طاقت کی جنگ لڑ رہی ہیں؟
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شام کے مسلح گروہ
شام کے بڑے علاقے پر مختلف باغی گروپوں اور صدر بشار الاسد کے درمیان کنٹرول کے حصول کی جنگ کے باعث ملک زبردست خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس تنازعہ میں اب تک کئی غیر ملکی طاقتیں شامل ہوچکی ہیں اور کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ڈکٹیٹر
شامی افواج جسے شامی عرب افواج ، ایس ایس اے، کے نام سے جانا جاتا ہے، ملکی صدر بشار الاسد کی وفا دار ہے اور پورے ملک پر بشار الاسد کی حکومت ایک بار پھر بحال کرنے کے لیے جنگ لڑ رہی ہے۔ اس جنگ میں ان کے ساتھ نیشنل ڈیفینس فورس جیسی ملیشیا ، روس اور ایران کے عسکری ماہرین کی مشاورت شامل ہے۔
ترکی اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ ہے اور اس وقت شامی جنگ میں صدر بشار الاسد کے حریف باغیوں کے گروپ کی حمایت کر رہا ہے۔ ترکی جنوبی ادلب اور افرین صوبوں میں باغیوں کے ہمراہ کارروائیوں میں ساتھ دے چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis
مشرقی محافظ
روس بشار الاسد کا طاقتور دوست ثابت ہو رہا ہے۔ ستمبر 2015 میں روسی فضائیہ اور زمینی افواج نے باقاعدہ طور پر شامی فوج کے شانہ بشانہ کارروائیوں میں حصہ لیا۔ روس کی اس خانہ جنگی میں شمالیت اب تک بشار الاسد کے حق میں ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
مغربی اتحادی
امریکا نے 50 ممالک کے اتحادیوں کے ساتھ شام میں سن 2014ء سے اسلامک اسٹیٹ کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت امریکا کے ایک ہزار سے زائد خصوصی دستے سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کی حمایت کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A.Brandon
مزاحمت کار
شامی کردوں اور اسلامک اسٹیٹ کے درمیان اختلافات جنگ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ امریکی حمایت یافتہ اتحاد اسلامک اسٹیٹ کے خلاف سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کا ساتھ دے رہا ہے جو کرد اور عرب ملیشیا کا بھی اتحادی ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Sik
نئے جہادی
اسلامک اسٹیٹ نے خطے میں جاری افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق اور شام کے بڑے علاقوں پر سن 2014ء میں قبضہ جما لیا تھا اور وہاں خلافت قائم کرنا چاہی۔ تاہم اب روس اور امریکی فوجی مداخلت کے بعد ان کو دونوں ممالک میں شکست فاش ہوئی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
پرانے جہادی
اسلامک اسٹیٹ وہ واحدگروپ نہیں جو شام میں تباہی کا ذمہ دار ہے۔ اس تنازعہ میں الاسد حکومت اور باغیوں کے کئی گروہ شامل ہیں۔ ان میں ایک بنیادی تنظیم حیات التحریر الاشام بھی ہے جس کے القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں اور جس نے صوبے ادلب کے بشتر حصے کا کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Nusra Front on Twitter