شامی جیل میں ہنگامہ آرائی، ’اسلامک اسٹيٹ‘ کے متعدد قیدی فرار
30 مارچ 2020
شام کے شمال مشرقی علاقے میں واقع ایک جیل میں شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ سے وابستہ بہت سے قیدی بند تھے اور فسادات کے دوران کئی قیدیوں کے فرار ہونے کی اطلاع ہے۔
اشتہار
شام کے شمال مشرق میں واقع ایک جیل، جہاں شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے مبینہ طور پر تعلق رکھنے والے بہت سے انتہا پسند قید تھے، میں ہنگامہ آرائی کے بعد متعدد قیدی فرار ہو گئے ہيں۔
کرد حکام کے مطابق الحسکہ میں واقع جیل میں اتوار انتيس مارچ کو بڑے پیمانے پر فسادات برپا ہوئے۔ وہاں قیدیوں نے جیل کی نچلی منزل پر کنٹرول حاصل کر لیا اور افراتفری اور تشدد کے دوران کئی قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ اس جیل میں شدت پسند تنظیم داعش سے مبینہ طور پر وابستہ کئی انتہا پسند بھی بند تھے۔
شام میں سرگرم کرد ’سیریئن ڈیموکریٹک فورسرز‘ (ایس ڈی ایف) سے وابستہ ایک ترجمان مصطفی بالی نے اس واقعے کے حوالے سے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں بتایاکہ قیدیوں نے کنٹرول حاصل کرنے کے بعد، ’’جیل کا اندرونی دروازہ توڑ دیا۔ ان میں سے کچھ تو فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور ہماری فورسز ان کو پکڑنے کے لیے تلاش کر رہی ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ قید خانے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے حکام کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی فورسز کو طلب کرنا پڑا۔
مصطفی بالی نے خبر رساں ادارے ایسوسی ايٹڈ پریس کو بتایا، ’’یوں تو قید خانوں میں فسادات اکثر پھوٹ پڑتے ہیں۔ لیکن اس بار یہ بہت بڑے پیمانے پر ہوا۔‘‘ انہوں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو جیل کے آس پاس کی صورت حال کے بارے میں بتایا، ’’سکیورٹی فورسز کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے۔ بین الاقوامی اتحاد کے طیارے جیل اور اس علاقے میں فضاء میں گشت کر رہے ہیں۔‘‘
اس دوران خطے میں امریکی قیادت والے اتحاد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس جیل میں شدت پسند تنظیم داعش سے وابستہ بہت ہی نچلی سطح کے قیدی تھے جن کا تعلق بیرونی ممالک سے ہے۔ گرچہ سرکاری حکام کی جانب سے فوری طور پر ایسی کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں کہ کتنے قیدی جیل سے فرار ہوئے تاہم شام کے حکومتی ٹیلی وژن پر بارہ قیدیوں کے فرار ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ لیکن شام کی صورت حال پر نظر رکھنے والے برطانیہ سے سرگرم انسانی حقوق کی تنظیم ’سیریئن آبزرویٹری آف ہیومن رائٹس‘ نے فرار ہونے والے قیدیوں کے تعداد چار بتائی ہے۔
ایس ڈی ایف کے ترجمان مصطفی بالی کا کہنا ہے کہ قیدخانے میں ہونے والے ان فسادات اور عالمی سطح پر پھیلنے والے کورونا وائرس کی وبا کے خوف میں کوئی ربط نہیں ہے۔گرچہ ان خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ شام کی جیلوں میں اس وبا کے پھیلنے کے امکانات بہت زیادہ ہیں تاہم کردوں کے زیر کنٹرول شمال مشرقی شام کے علاقے کی جیلوں میں ابھی تک اس طرح کے انفیکشن کی اطلاعات نہیں ہیں۔
شام کے شمالی علاقوں میں کردوں کے زیر انتظام دو درجن سے زیادہ حراستی مراکز ہیں جس میں شدت پسند تنظیم آئی ایس سے وابستہ دس ہزار سے زیادہ انتہا پسند قید ہیں۔ ان میں سے تقریباً دو ہزار کا تعلق بیرونی ممالک سے ہے۔
گزشتہ برس خطے میں سرگرم کرد ملیشیا نے امریکی قیادت والے اتحاد کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف فتح کا اعلان کیا تھا۔ تبھی سے کرد انتظامیہ بیرونی ممالک سے اپنے ملک کے شدت پسندوں کو واپس لینے کی درخواست کرتی رہی ہے کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں قیدیوں کو سنبھالنا کرد فورسز کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔ لیکن بیرونی ممالک کی حکوتیں اپنے ایسے شہریوں کو واپس لینے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔
ص ز / ج ا (نيوز ایجنسیاں)
شامی خانہ جنگی: آغاز سے الرقہ کی بازیابی تک، مختصر تاریخ
سن دو ہزار گیارہ میں شامی صدر کے خلاف پرامن مظاہرے خانہ جنگی میں کیسے بدلے؟ اہم واقعات کی مختصر تفصیلات
تصویر: picture-alliance/dpa
پندرہ مارچ، سن دو ہزار گیارہ
مارچ سن ہزار گیارہ میں شام کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ عرب اسپرنگ کے دوران جہاں کئی عرب ممالک میں عوام نے حکومتوں کے تختے الٹ دیے، وہیں شامی مظاہرین بھی اپنے مطالبات لیے سڑکوں پر نکلے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ حکومت سیاسی اصلاحات کرے۔ تاہم پندرہ مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتے عوام پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چار شہری مارے گئے۔
تصویر: dapd
اٹھائیس مارچ، سن دو ہزار گیارہ
شامی صدر بشار الاسد کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے عوامی مظاہروں کو کچل دیا جائے گا۔ پندرہ مارچ سے شروع ہوئے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اٹھائیس مارچ تک ساٹھ مظاہرین ہلاک کر دیے گئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے شام بھر میں پھیلنے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اٹھارہ اگست، سن دو ہزار گیارہ
شامی حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کے جواب میں تب امریکی صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور امریکا میں تمام شامی حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم شامی صدر نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کر دیے اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی گئی۔
تصویر: AP
انیس جولائی، سن دو ہزار بارہ
جولائی سن دو ہزار بارہ میں حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو گیا۔ تب درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں بھی جھڑپوں میں شدت آ گئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔
تصویر: dapd
دسمبر، سن دو ہزار بارہ
برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیریئن کولیشن سے تعاون بھی شروع کر دیا گیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیے۔ دوسری طرف اسد کے خلاف جاری لڑائی میں شدت پسند عسکری گروہ بھی ملوث ہو گئے۔ ان میں القاعدہ نمایاں تھی۔
تصویر: Reuters
انیس مارچ، سن دو ہزار تیرہ
اس دن خان العسل میں کیمیائی حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر تعداد شامی فوجیوں کی تھی۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے مطابق یہ سارین گیس کا حملہ تھا۔ تاہم معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کارروائی کس نے کی تھی۔ حکومت اور باغی فورسز نے اس حملے کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی سال عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
ستائیس ستمبر، دو ہزار تیرہ
شامی تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے دمشق حکومت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ نہ بنایا تو اس کے خلاف عسکری طاقت استعمال کی جائے گی۔ تب صدر اسد نے ان خطرناک ہتھیاروں کا ناکارہ بنانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اسی دوران سیاسی خلا کی وجہ سے انتہا پسند گروہ داعش نے شام میں اپنا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
جون، سن دو ہزار چودہ
شامی شہر الرقہ پہلا شہر تھا، جہاں انتہا پسند گروہ داعش نے مکمل کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جون میں داعش نے اس شہر کو اپنا ’دارالخلافہ‘ قرار دے دیا۔ تب ان جنگجوؤں نے اسی مقام سے اپنے حملوں کا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔ بائیس ستمبر کو امریکی اتحادی افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/Yaghobzadeh Rafael
تئیس ستمبر، دو ہزار پندرہ
شامی تنازعے میں روس اگرچہ پہلے بھی شامی بشار الاسد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے تھا تاہم اس دن ماسکو حکومت شامی خانہ جنگی میں عملی طور پر فریق بن گئی۔ تب روسی جنگی طیاروں نے اسد کے مخالفین کے خلاف بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تاہم ماسکو کا کہنا تھا کہ وہ صرف جہادیوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/M. Japaridze
مارچ، سن دو ہزار سولہ
روسی فضائیہ کی مدد سے شامی دستوں کو نئی تقویت ملی اور جلد ہی انہوں نے جنگجوؤں کے قبضے میں چلے گئے کئی علاقوں کو بازیاب کرا لیا۔ اس لڑائی میں اب شامی فوج کو ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا تعاون بھی حاصل ہو چکا تھا۔ مارچ میں ہی اس اتحاد نے پالمیرا میں داعش کو شکست دے دی۔
تصویر: REUTERS/O. Sanadiki
دسمبر، سن دو ہزار سولہ
روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے تعاون سے شامی فوج نے حلب میں بھی جہادیوں کو پسپا کر دیا۔ تب تک یہ شہر خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ شہری علاقے میں شامی فوج کی یہ پہلی بڑی کامیابی قرار دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. al-Masri
جنوری، سن دو ہزار سترہ
امریکا، ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کی وجہ سے شامی حکومت اور غیر جہادی گروہوں کے مابین ایک سیزفائر معاہدہ طے پا گیا۔ تاہم اس ڈیل کے تحت جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا۔
تصویر: Reuters/R. Said
اپریل، سن دو ہزار سترہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد حکم دیا کہ شامی حکومت کے اس فوجی اڈے پر میزائل داغے جائیں، جہاں سے مبینہ طور پر خان شیخون میں واقع شامی باغیوں کے ٹھکانوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا۔ امریکا نے اعتدال پسند شامی باغیوں کی مدد میں بھی اضافہ کر دیا۔ تاہم دوسری طرف روس شامی صدر کو عسکری تعاون فراہم کرتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/US Navy
جون، سن دو ہزار سترہ
امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے فائٹرز نے الرقہ کا محاصرہ کر لیا۔ کرد اور عرب جنگجوؤں نے اس شہر میں داعش کو شکست دینے کے لیے کارروائی شروع کی۔ اسی ماہ روس نے اعلان کر دیا کہ ایک فضائی حملے میں داعش کا رہنما ابوبکر البغدادی غالباﹰ مارا گیا ہے۔ تاہم اس روسی دعوے کی تصدیق نہ ہو سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Huby
اکتوبر، دو ہزار سترہ
ستمبر میں کرد فورسز نے الرقہ کا پچاسی فیصد علاقہ بازیاب کرا لیا۔ اکتوبر میں اس فورس نے الرقہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر کارروائی کا آغاز کیا۔ مہینے بھر کی گھمسان کی جنگ کے نتیجے میں اس فورس نے سترہ اکتوبر کو اعلان کیا کہ جہادیوں کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے۔ اس پیشقدمی کو داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تاہم شامی خانہ جنگی کے دیگر محاذ پھر بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔