شامی حکومت کا ناقد پابند سلاسل ، ہیومن رائٹس واچ کی تنقید
16 اگست 2010اتوار کو ہشام پورے اسی برس کے ہوگئے ہیں تاہم ان کی تین سال کی سزائے قید اب بھی برقرار ہے۔ رواں سال جولائی میں شام کی ایک عسکری عدالت نے انہیں ’قومی مورال کو کمزور کرنے‘ کے الزام پر جیل بھیج دیا تھا۔
ہشام کو گزشتہ سال اس وقت گرفتار کیا گیا جب انہوں نے ملک میں لاپتہ ہونے والے ہزاروں افراد کے بارے میں برسراقتدار بعث پارٹی سےسوالات کرنے کا سلسلہ تیز تر کردیا تھا۔ بعث پارٹی شام میں 1963ء سے برسراقتدار ہے۔ 80ء کی دہائی میں اس جماعت نے مخالفین کو دبانے کے لئے مبینہ طور پر خونریز کارورائیاں کیں تھیں، جس کے بعد سے ہزاروں افراد لاپتہ ہیں۔
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ کے مشرق وسطیٰ سے متعلقہ امور کے ڈائریکٹر جو سٹورک کا کہنا ہے کہ صدر بشار الاسد کسی طرح بھی ایک 80 سالہ شخص کو محض اس لئے پابند سلاسل نہیں رکھ سکتے کہ وہ اپنے خیالات کا برملا اظہار کر رہا تھا۔ اتوار کا جاری کئے گئے بیان میں سٹورک نے صدر اسد پر زور دیا ہے کہ وہ رمضان کے اس مہینے میں فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ہشام کی رہائی کے احکامات جاری کریں۔ ہیومن رائٹس واچ نے ہشام کے بیٹے کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اسی سالہ حکومتی ناقد کی صحت ٹھیک نہیں۔
ہشام ال مالیح بنیادی طور پر ایک سابق جج ہیں اور وہ بشار الاسد کے والد حافظ الاسد کے دور میں بھی چھ سال کی قید کاٹ چکے ہیں۔ 80ء کی دہائی میں جب بعث پارٹی نے عدلیہ اور وکلاء کی تنظیموں پر قبضہ کیا تو ہشام مزاحمت کرنے والوں میں سر فہرست تھے، جس کی وجہ سے انہیں بطور سیاسی قیدی جیل میں ڈالا گیا تھا۔ نوجوانی میں وکیل کی حیثیت سے بھی وہ سیاسی قیدیوں کا دفاع کرتے رہے ہیں۔
2006ء میں ڈچ حکومت نے انہیں گیوزین میڈل دسے نوازنے کا اعلان کیا تھا تاہم انہیں شام چھوڑنے کی اجازت نہیں تھی اس لئے وہ یہ اعزاز حاصل کرنے بھی نہ جاسکےتھے ۔
اگرچہ حال ہی میں واشنگٹن اور شام کے باہمی تعلقات میں نمایاں بہتری دیکھی جارہی ہے لیکن اس بزرگ سیاسی قیدی کی رہائی کے لئے بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کرنے والوں میں امریکہ سرفہرست ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف بلوچ