شامی خانہ جنگی سے مالی نقصانات چار سو بلین ڈالر کے قریب
9 اگست 2018
شام کی سات سالہ خانہ جنگی کی وجہ سے تقریباﹰ چار سو بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔ اس تنازعے کی وجہ سے ساڑھے تین لاکھ سے زائد انسانی جانیں بھی ضائع ہو چکی ہیں جبکہ لاکھوں شامی مہاجرت پر بھی مجبور ہو چکے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ شامی خانہ جنگی کی تباہ کاریوں کی وجہ سے گزشتہ سات برسوں کے دوران قریب چار سو بلین ڈالر کا مالی نقصان ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق وسیع پیمانے پر ہونے والی اس تباہی کے تدارک کے لیے اب کئی سال درکار ہوں گے۔
یہ اعداد و شمار شام کے ہمسایہ ملک لبنان میں ہوئی ایک عالمی کانفرنس کے موقع پر جاری کیے گئے ہیں۔ اس دو روزہ کانفرنس کا اہتمام اقوام متحدہ کے اقتصادی اور سماجی کمیشن برائے مغربی ایشیا ESCWA نے کیا، جس میں پچاس کے قریب شامی اور بین الاقوامی ماہرین نے شرکت کی۔ اس اجتماع کا مقصد شام میں ہونے والی مادی تباہی کی مالیت کا اندازہ لگانا تھا۔
شامی خانہ جنگی اعدادوشمار میں
01:41
اس کانفرنس میں شریک ’ای ایس سی ڈبلیو اے‘ کے ماہرین نے بتایا کہ خانہ جنگی کی وجہ سے شام کو تین سو اٹھاسی بلین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے اور اگر اس تباہی کو روکنے کی خاطر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مزید نقصان یقینی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس تخمینے میں ہلاکتوں اور مہاجرت کی وجہ سے ہونے والے مالی نقصان کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق شامی جنگ کی وجہ سے اب تک تقریبا ساڑھے تین لاکھ افراد مارے جا چکے ہیں جبکہ شام کی نصف آبادی مہاجرت پر مجبور ہوئی ہے۔ یہ لوگ ملک میں ہی اپنے گھر بار کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں یا انہوں نے دیگر ممالک میں پناہ حاصل کرنے کی خاطر ہجرت کی ہے۔ اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ ہلاکتوں اور مہاجرت کی وجہ سے بھی شام میں اقتصادی مشکلات دوچند ہوئی ہیں۔
شام میں مالی اور اقتصادی نقصان کے بارے میں معلومات پر مشتمل اقوام متحدہ کے ادارے ’ای ایس سی ڈبلیو اے‘ کی مکمل جامع رپورٹ ستمبر میں جاری کی جائے گی۔ شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج اور ملیشیا گروپوں نے حالیہ برسوں کے دوران جہادی گروہوں کے خلاف کامیاب پیشقدمی کی ہے۔ بالخصوص سن دو ہزار پندرہ میں روسی مداخلت کی وجہ سے شامی فورسز کو کافی زیادہ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ شامی خانہ جنگی میں روس کو شامی حکومت کا ایک اہم اتحادی قرار دیا جاتا ہے۔
ع ب / ع ا / م م / خبر رساں ادارے
شامی تنازعہ میں برسر پیکار قوتیں
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں سن 2011ء کے عرب اسپرنگ کے بعد شام میں خانہ جنگی کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے دنیا کے مختلف حریف گروہوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت شام میں کون سی قوتیں طاقت کی جنگ لڑ رہی ہیں؟
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شام کے مسلح گروہ
شام کے بڑے علاقے پر مختلف باغی گروپوں اور صدر بشار الاسد کے درمیان کنٹرول کے حصول کی جنگ کے باعث ملک زبردست خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس تنازعہ میں اب تک کئی غیر ملکی طاقتیں شامل ہوچکی ہیں اور کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ڈکٹیٹر
شامی افواج جسے شامی عرب افواج ، ایس ایس اے، کے نام سے جانا جاتا ہے، ملکی صدر بشار الاسد کی وفا دار ہے اور پورے ملک پر بشار الاسد کی حکومت ایک بار پھر بحال کرنے کے لیے جنگ لڑ رہی ہے۔ اس جنگ میں ان کے ساتھ نیشنل ڈیفینس فورس جیسی ملیشیا ، روس اور ایران کے عسکری ماہرین کی مشاورت شامل ہے۔
ترکی اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ ہے اور اس وقت شامی جنگ میں صدر بشار الاسد کے حریف باغیوں کے گروپ کی حمایت کر رہا ہے۔ ترکی جنوبی ادلب اور افرین صوبوں میں باغیوں کے ہمراہ کارروائیوں میں ساتھ دے چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis
مشرقی محافظ
روس بشار الاسد کا طاقتور دوست ثابت ہو رہا ہے۔ ستمبر 2015 میں روسی فضائیہ اور زمینی افواج نے باقاعدہ طور پر شامی فوج کے شانہ بشانہ کارروائیوں میں حصہ لیا۔ روس کی اس خانہ جنگی میں شمالیت اب تک بشار الاسد کے حق میں ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
مغربی اتحادی
امریکا نے 50 ممالک کے اتحادیوں کے ساتھ شام میں سن 2014ء سے اسلامک اسٹیٹ کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت امریکا کے ایک ہزار سے زائد خصوصی دستے سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کی حمایت کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A.Brandon
مزاحمت کار
شامی کردوں اور اسلامک اسٹیٹ کے درمیان اختلافات جنگ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ امریکی حمایت یافتہ اتحاد اسلامک اسٹیٹ کے خلاف سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کا ساتھ دے رہا ہے جو کرد اور عرب ملیشیا کا بھی اتحادی ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Sik
نئے جہادی
اسلامک اسٹیٹ نے خطے میں جاری افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق اور شام کے بڑے علاقوں پر سن 2014ء میں قبضہ جما لیا تھا اور وہاں خلافت قائم کرنا چاہی۔ تاہم اب روس اور امریکی فوجی مداخلت کے بعد ان کو دونوں ممالک میں شکست فاش ہوئی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
پرانے جہادی
اسلامک اسٹیٹ وہ واحدگروپ نہیں جو شام میں تباہی کا ذمہ دار ہے۔ اس تنازعہ میں الاسد حکومت اور باغیوں کے کئی گروہ شامل ہیں۔ ان میں ایک بنیادی تنظیم حیات التحریر الاشام بھی ہے جس کے القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں اور جس نے صوبے ادلب کے بشتر حصے کا کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Nusra Front on Twitter