شامی خانہ جنگی ميں روسی مداخلت کے تين سال، اٹھارہ ہزار اموات
30 ستمبر 2018
شام ميں پچھلے تين برسوں کے دوران روسی فضائی حملوں ميں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اٹھارہ ہزار سے زائد ہے، جن ميں سے تقريباً نصف عام شہری تھے۔ شامی خانہ جنگی ميں روسی مداخلت نے اس تنازعے پر گہرے اثرات مرتب کيے۔
اشتہار
شام ميں خانہ جنگی مارچ سن 2011 ميں شروع ہوئی تھی جب کہ روس نے وہاں فضائی حملوں کا سلسلہ باقاعدہ طور پر تيس ستمبر سن 2015 کے روز يعنی آج سے ٹھیک تين سال قبل شروع کيا تھا۔ شامی اپوزیشن تنظیم سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس کے مطابق اس دوران روسی فضائی حملوں ميں مجموعی طور پر 18 ہزار 96 افراد ہلاک ہوئے، جن ميں سے تقريباً نصف يا 7,988 عام شہری تھے۔ روسی حملوں ميں داعش کے 5,233 جنگجو بھی مارے گئے جبکہ باقی ماندہ ہلاک شدگان شامی باغی اور جہادی تھے۔
انسانی حقوق کے ليے سرگرم متعدد گروپ اور مغربی ممالک کی حکومتيں شام ميں روسی فضائی حملوں پر تنقيد کرتے آئے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے بلا تفريق اہداف کو نشانہ بنايا جاتا ہے اور ايسے ميں شہری علاقے اور ہسپتال وغيرہ بھی بمباری کی زد ميں آتے ہيں۔ شام ميں اپوزيشن کے زير کنٹرول علاقوں ميں سرگرم ’وائٹ ہيلمٹس‘ نامی ايک ريسکيو فورس کے مطابق سن 2015 سے لے کر اب تک اس کے کارکنوں نے کئی ايسے واقعات ميں امدادی کارروائیاں کیں، جن ميں عام شہريوں کے زير استعمال عمارات روسی بمباری کا نشانہ بنی تھیں۔ ’وائٹ ہيلمٹس‘ کی اس بارے ميں جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق انيس اسکول، بارہ عوامی مارکيٹیں، بيس طبی مراکز اور اس تنظيم کے بھی کم از کم اکيس مراکز پچھلے تين سالوں ميں روسی فضائی حملوں کی زد ميں آ چکے ہيں۔
شام کے ساحلی صوبے طرطوس ميں کئی دہائيوں سے روس کا ايک بحری اڈہ بھی ہے تاہم گزشتہ تین برسوں سے روسی افواج نے حميميم کے فضائی اڈے پر بھی اپنی سرگرمياں بہت بڑھا دی ہيں۔ علاوہ ازيں صدر بشار الاسد کی حکومت کے زير قبضہ علاقوں ميں کئی مقامات پر روس کی خصوصی فورسز بھی تعينات ہيں۔
ايران اور روس شامی صدر بشار الاسد کت اتحادی ہیں۔ روسی مداخلت ہی کے نتيجے ميں شامی خانہ جنگی ميں صدر اسد کے دستوں کو بڑی کاميابياں ملنا شروع ہوئی تھیں اور وہ کئی اہم مقامات پر پيش قدمی کے قابل ہوئے تھے۔
سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس کے سربراہ رامی عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ جب روس نے شام ميں فضائی کارروائیاں شروع کیں، تو اس وقت ملک کے صرف چھبيس فيصد حصے پر بشار الاسد کی افواج کا کنٹرول تھا جبکہ اس وقت شام کا دو تہائی حصہ اسد حکومت کی فورسز کے کنٹرول میں ہے۔
شامی تنازعہ میں برسر پیکار قوتیں
مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں سن 2011ء کے عرب اسپرنگ کے بعد شام میں خانہ جنگی کا جو سلسلہ شروع ہوا اس نے دنیا کے مختلف حریف گروہوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت شام میں کون سی قوتیں طاقت کی جنگ لڑ رہی ہیں؟
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
شام کے مسلح گروہ
شام کے بڑے علاقے پر مختلف باغی گروپوں اور صدر بشار الاسد کے درمیان کنٹرول کے حصول کی جنگ کے باعث ملک زبردست خانہ جنگی کا شکار ہے۔ اس تنازعہ میں اب تک کئی غیر ملکی طاقتیں شامل ہوچکی ہیں اور کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ڈکٹیٹر
شامی افواج جسے شامی عرب افواج ، ایس ایس اے، کے نام سے جانا جاتا ہے، ملکی صدر بشار الاسد کی وفا دار ہے اور پورے ملک پر بشار الاسد کی حکومت ایک بار پھر بحال کرنے کے لیے جنگ لڑ رہی ہے۔ اس جنگ میں ان کے ساتھ نیشنل ڈیفینس فورس جیسی ملیشیا ، روس اور ایران کے عسکری ماہرین کی مشاورت شامل ہے۔
ترکی اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی اتحاد کا حصہ ہے اور اس وقت شامی جنگ میں صدر بشار الاسد کے حریف باغیوں کے گروپ کی حمایت کر رہا ہے۔ ترکی جنوبی ادلب اور افرین صوبوں میں باغیوں کے ہمراہ کارروائیوں میں ساتھ دے چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L. Pitarakis
مشرقی محافظ
روس بشار الاسد کا طاقتور دوست ثابت ہو رہا ہے۔ ستمبر 2015 میں روسی فضائیہ اور زمینی افواج نے باقاعدہ طور پر شامی فوج کے شانہ بشانہ کارروائیوں میں حصہ لیا۔ روس کی اس خانہ جنگی میں شمالیت اب تک بشار الاسد کے حق میں ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tass/M. Metzel
مغربی اتحادی
امریکا نے 50 ممالک کے اتحادیوں کے ساتھ شام میں سن 2014ء سے اسلامک اسٹیٹ کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس وقت امریکا کے ایک ہزار سے زائد خصوصی دستے سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کی حمایت کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A.Brandon
مزاحمت کار
شامی کردوں اور اسلامک اسٹیٹ کے درمیان اختلافات جنگ کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ امریکی حمایت یافتہ اتحاد اسلامک اسٹیٹ کے خلاف سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کا ساتھ دے رہا ہے جو کرد اور عرب ملیشیا کا بھی اتحادی ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Sik
نئے جہادی
اسلامک اسٹیٹ نے خطے میں جاری افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عراق اور شام کے بڑے علاقوں پر سن 2014ء میں قبضہ جما لیا تھا اور وہاں خلافت قائم کرنا چاہی۔ تاہم اب روس اور امریکی فوجی مداخلت کے بعد ان کو دونوں ممالک میں شکست فاش ہوئی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
پرانے جہادی
اسلامک اسٹیٹ وہ واحدگروپ نہیں جو شام میں تباہی کا ذمہ دار ہے۔ اس تنازعہ میں الاسد حکومت اور باغیوں کے کئی گروہ شامل ہیں۔ ان میں ایک بنیادی تنظیم حیات التحریر الاشام بھی ہے جس کے القاعدہ کے ساتھ روابط ہیں اور جس نے صوبے ادلب کے بشتر حصے کا کنٹرول حاصل کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Nusra Front on Twitter