1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی خانہ جنگی چوتھے سال میں داخل ہو گئی

مقبول ملک16 مارچ 2014

شام میں ہلاکت خیز خانہ جنگی بن جانے والے تنازعے کے ہفتہ 15 مارچ کو ٹھیک تین سال پورے ہو گئے۔ اس طرح اب تک کم از کم ایک لاکھ 46 ہزار انسانوں کی ہلاکت کا سبب بننے والا یہ تنازعہ اپنے چوتھے سال میں داخل ہو گیا ہے۔

تصویر: Reuters/Hosam Katan

صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے 15 مارچ 2011ء کے روز شروع ہوئے تھے۔ یہ عوامی مظاہرے جلد ہی اپوزیشن کی ایک ایسی مسلح تحریک بن گئے تھے، جو دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں پھیل گئی تھی۔ شامی باغی خود کو اندرون اور بیرون ملک سے ملنے والی سیاسی، مالی اور عسکری امداد کے بعد کوشش کرنے لگے کہ کسی طرح صدر بشار الاسد کو اقتدار سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دیں۔

شام کے بیشتر علاقے تباہی کا منظر پیش کرتے ہیںتصویر: REUTERS

مسلح باغیوں کی ان کوششوں کو ناکام بنانے کا تہیہ کیے ہوئے شام کی سرکاری فورسز نے ایسے حکومت مخالف عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کی تو مشرق وسطیٰ کی اس ریاست میں تنازعہ پھیل کر ایسی خونریز اور تباہ کن خانہ جنگی بن گیا، جس میں ابھی تک کسی بھی فریق کو کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔

اس دوران اقوام متحدہ اور شامی اپوزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق تین سالوں میں ایک لاکھ 46 ہزار سے زائد افراد مارے گئے، جن میں شامی فورسز کے ارکان بھی تھے اور باغی بھی لیکن اس دوران ہزار ہا شہری ہلاکتوں سے بھی نہ بچا جا سکا۔

شام میں تین سال قبل جو تنازعہ داخلی عوامی احتجاج کے طور پر شروع ہوا تھا، اس میں اب تک پیش منظر یا پس منظر میں رہ کر براہ راست یا بالواسطہ طور پر حصہ لینے والے کئی فریق شامل ہو چکے ہیں۔ اس تنازعے کے بڑے فریق دو ہیں لیکن کردار کافی زیادہ۔

شامی باغیوں کو دہشت گرد قرار دینے والی دمشق میں اسد حکومت تہیہ کیے ہوئے ہے کہ وہ ان ’دہشت گردوں‘ کو ناکام بنا دے گی۔ شامی باغی، جو خود کو کافی حد تک عسکری حوالے سے منظم کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ بشار الاسد کو اقتدار سے علیحدہ ہونا ہی پڑے گا۔

لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ بھی، جس کے مسلح جنگجو اسد حکومت کی فورسز کے شانہ بشانہ باغیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، اس تنازعے میں ایک مسلح کردار بن چکی ہے۔ دوسری طرف اسلام پسند جہادی اور شدت پسند مسلمان بھی ہیں، جن کی اکثریت بیرونی ملکوں سے شام پہنچی تھی، جو اسد حکومت کے خلاف مصروف عمل ہیں۔ ان سنی عسکریت پسندوں کے کئی گروپ ہیں، جن میں سے متعدد القاعدہ کے ہم خیال ہیں۔ وہ علاقائی سطح پر اسلام پسند عسکریت پسندوں کی تنظیموں سے رابطے میں ہیں اور شام میں اسلامی ریاست کے قیام کے حامی ہیں۔

شامی تنازعے کے کرداروں کی فہرست یہیں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ کئی سنی عرب ریاستیں شامی باغیوں اور متحدہ شامی اپوزیشن کی عسکری اور مالی مدد کر رہی ہیں۔ جنگ کی وجہ سے ہمسایہ ملک لبنان میں ہلاکتیں اور بم حملے بھی کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ ایران صدر اسد کا بہت بڑا اتحادی ہے اور حزب اللہ کی بھی مدد کر رہا ہے۔ باقی ماندہ کرداروں میں اقوام متحدہ اور مغربی دنیا بھی شامل ہیں جو تنازعے کے پر امن حل کی وکالت کر رہے ہیں لیکن اب تک شام سے متعلق جنیوا ون اور جنیوا ٹو نامی امن مذاکرات کا نتیجہ ناکامی ہی نکلا ہے۔

شامی افواج نے باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں ٹینکوں کے علاوہ فضائی حملوں کا سہارا بھی لیاتصویر: Sam Skaine/AFP/GettyImages

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق شام میں خانہ جنگی کے باعث اب تک نو ملین افراد اپنے گھروں سے رخصتی پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ڈھائی ملین یا تو ہمسایہ ملکوں میں باقاعدہ رجسٹرڈ مہاجرین ہیں یا اپنی رجسٹریشن کے انتظار میں ہیں۔ ساڑھے چھ ملین سے زائد شامی باشندے اپنے ہی ملک میں مہاجر بن چکے ہیں۔

خانہ جنگی کے تین سال پورے ہونے کے موقع پر شامی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ہفتے کے روز کئی مغربی ملکوں کے دارالحکومتوں میں ہزار ہا مقامی شہریوں اور شامی باشندوں نے احتجاجی مظاہرے کیے۔ پیرس، لندن، میڈرڈ اور واشنگٹن میں مظاہرین کی تعداد ہزاروں میں رہی۔ اطالوی دارالحکومت روم میں ہونے والے مظاہرے کے ہزاروں شرکاء نے شہر کے وسط میں احتجاجی مارچ کیا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں