1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد سے صدر اسد کا پہلا دورہ چین

22 ستمبر 2023

شامی صدر بشار الاسد نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے جمعے کے روز ملاقات کی۔ چین اسد حکومت سے طویل عرصے سے سفارتی تعاون کر رہا ہے اور جنگ سے تباہ حال شام کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

سن 2011 میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کے بعد سے صدر اسد کا چین کا یہ پہلا دورہ ہے
سن 2011 میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کے بعد سے صدر اسد کا چین کا یہ پہلا دورہ ہےتصویر: Huang Zongzhi/Xinhua/picture alliance

چینی صدر شی جن پنگ نے شام کے صد ر بشارالاسد سے ملاقات کے بعد کہا کہ دونوں ملک اسٹریٹیجک پارٹنرشپ کو آگے بڑھائیں گے۔ چین اسد حکومت کو طویل مدت سے سفارتی تعاون دے رہا ہے اور جنگ سے تباہ حال ملک کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کے مطابق صدر شی جن پنگ نے جمعے کے روز شامی صدر بشار الاسد سے ملاقات کی اور کہا کہ دونوں رہنما ''چین شام اسٹریٹیجک شراکت داری کے قیام کا مشترکہ اعلان کریں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ شراکت داری ''دو طرفہ تعلقات کی تاریخ میں ایک سنگ میل بن جائے گی۔‘‘

شی جن پنگ کا کہنا تھا، ''عدم استحکام اور غیر یقینی صورت حال سے بھرپور بین الاقوامی حالات کا سامنا کرتے ہوئے چین شام کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے، ایک دوسرے کی مضبوطی سے حمایت، دوستانہ تعاون کو فروغ دینے اور بین الاقوامی انصاف اور انصاف کا مشترکہ دفاع کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘

کیا شامی آمر بشار الاسد کو دوبارہ بین الاقوامی قبولیت حاصل ہو گئی؟

شامی صدر بشارالاسد جمعرات کے روز چینی شہر ہانگ ژو پہنچے۔ وہ متعدد شہروں کا دورہ کریں گے۔ اسد چین کے مشرقی شہر ہانگ ژو میں منعقدہ ایشیائی کھیلوں کے مقابلے بھی دیکھیں گے، جو ہفتے کے روز شروع ہو رہے ہیں۔

شامی رہنما کے دفتر نے بتایا کہ انہیں شی جن پنگ نے چین آنے کی دعوت دی تھی اور ان کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی گیا ہے۔چینی صدر جمعے کے روز ہانگ ژو پہنچے رہے ہیں جہاں انہوں نے اسد اورایشیائی کھیلوں میں شرکت کرنے والے دیگر ملکوں اور حکومتوں کے سربراہان مملکت کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کیا ہے۔

صدر شی جن پنگ نے جمعے کے روز شامی صدر بشار الاسد سے ملاقات کیتصویر: SANA/REUTERS

اسد چینی امداد کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں

سن 2011 میں حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف صدر اسد کے سخت کریک ڈاؤن کے آغاز کے بعد سے اور ان تنازعات کی موجودگی میں جو شام میں آج بھی پائے جاتے ہیں، صدر اسد کا چین کا یہ پہلا دورہ ہے۔

شام کی طویل خانہ جنگی میں اب تک پانچ لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور لاکھوں شہری بے گھر ہو چکے ہیں جب کہ ملک میں بنیادی ڈھانچے اور صنعتوں کا بہت بڑا حصہ بھی تباہ ہو چکا ہے۔

لندن میں چیٹہم ہاؤس کے کنسلٹنگ فیلو حید حید کا کہناہے کہ اسد کی شی جن پنگ سے ملاقات میں شام کی تعمیر نو میں مدد حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کیے جانے کی امید ہے۔

انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ شام نے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو (بی آر آئی) میں شمولیت اختیار کی، جو ترقی پذیر علاقوں کوبنیادی ڈھانچے کی فنڈنگ فراہم کرتا ہے اور جس کا مقصد بظاہر علاقائی اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش ہے۔ تاہم شام میں بی آر آئی منصوبوں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ اب تک نہیں ہوا۔

صدر اسد کا یہ دورہ ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب چین مشرق وسطیٰ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات کی بحالی کے لیے کامیاب کوشش بھی چین کی اسی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ اس کے بعد سے دونوں حریف ممالک ایران اور سعودی عرب اپنے تعلقات بحال کر چکے ہیں اور انہوں نے ایک دوسرے کے ہاں اپنے اپنے سفارت خانے بھی دوبارہ کھول دیے ہیں۔

شام کے لیے چین کی حمایت

بیجنگ عرصے سے اسد حکومت کی حمایت کرتا آیا ہے، جس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سفارتی مدد فراہم کرنا بھی شامل ہے۔ سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونے کی حیثیت سے چین اسد حکومت کے خلاف قراردادوں کو روکنے کے لیے اپنی ویٹو کی طاقت کا استعمال آٹھ بار کر چکا ہے۔

اقوام متحدہ نے اپنی تحقیقات میں اسد حکومت کو جنگی جرائم کے ارتکاب میں ملوث پایا تھا۔ جنگ کی وجہ سے اسد عرب دنیا میں بھی الگ تھلگ ہو کر رہ گئے تھے جب کہ مغربی ملکوں نے بھی ان پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

امریکہ شام کی عرب لیگ میں دوبارہ شمولیت پر ناراض

لیکن مئی 2023 میں سعودی عرب میں سربراہی اجلاس میں شام کی عرب لیگ میں واپسی کو اس بات کی علامت کے طورپر دیکھا گیا کہ صدر اسدکے الگ تھلگ ہو کر رہ جانے کا دور ختم ہو رہا ہے اور وہ آئندہ بھی شام میں اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط اور قائم رکھیں گے۔

ج ا / م م (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)

 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں