1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی رہنما کا دورہ واشنگٹن، ایک نئی علاقائی ترتیب کا آغاز؟

16 نومبر 2025

رواں ہفتے شام نے 'اسلامک اسٹیٹ' کے خلاف لڑنے والے امریکی قیادت والے عالمی اتحاد میں شمولیت اختیار کی۔ تاہم شام کا یہ اقدام اتحاد میں شمولیت سے کہیں زیادہ بڑا ہے اور ماہرین کے مطابق یہ ممکنہ نئے علاقائی اتحاد کی علامت ہے۔

ٹرمپ اور احمد الشرع
شام کے عبوری صدر احمد الشرع، جنہیں امریکہ نے پہلے دہشت گرد قرار دے کر جیل بھیج دیا تھا، کا وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خیر مقدم کیا تصویر: Bandar Aljaloud/Saudi Royal Palace/AP Photo/picture alliance

شام کے عبوری صدر، احمد الشرع، جو پہلے القاعدہ کے ساتھ لڑتے تھے اور امریکہ نے انہیں دہشت گرد قرار دے کر جیل بھیج دیا تھا، کا وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خیر مقدم کیا، البتہ ان کا وفد دوسرے دروازے سے ملاقات کے لیے وہاں پہنچا۔

کچھ لوگوں کے لیے اس حقیقت پر یقین کرنا بھی مشکل تھا کہ القاعدہ کا ایک سابق رکن بھی اپنے ملک کو شدت پسند "اسلامک اسٹیٹ" گروپ کے خلاف لڑنے والے عالمی اتحاد کے لیے دستخط کرے گا۔  "اسلامک اسٹیٹ" یا داعش گروپ اصل میں عراق میں القاعدہ کی ہی ایک شاخ تھی۔

لیکن پھر الشرع کے ملیشیا گروپ ہیئت التحریر الشام، (ایچ ٹی ایس) بالآخر 2016 میں القاعدہ سے الگ ہو کر نیا گروپ تشکیل پایا اور اس نے شام کے آمر بشار الاسد کی حکومت سے لڑنے پر زیادہ توجہ دی۔ ایچ ٹی ایس بھی اصل میں "آئی ایس" گروپ کی مخالف تھی اور برسوں تک شام کے اندر اس سے لڑتی بھی رہی۔

شام میں 'اسلامک اسٹیٹ' اب بھی خطرناک گروپ

داعش کے خلاف عالمی اتحاد میں شام شامل ہونے والا 90واں ملک ہے، کیونکہ شام کے اندر "آئی ایس" اب بھی ایک خطرہ بنی ہوئی ہے۔ تین سے ڈھائی ہزار کے درمیان داعش کے وفادار اب بھی شام میں موجود ہیں اور اسد حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے انہوں نے اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں۔

نیدرلینڈز میں انٹرنیشنل سینٹر فار کاؤنٹر ٹیررازم (آئی سی سی ٹی) سے وابستہ محقق تانیہ مہرا نے ایک حالیہ جائزے میں لکھا کہ "آئی ایس آئی ایس عدم استحکام اور افراتفری میں پروان چڑھتا ہے۔ باغی گروپوں کے درمیان جتنی زیادہ اندرونی لڑائی ہو گی، اور حکومت کو پڑوسیوں (ممالک) کے حملوں سے جتنا نمٹنا پڑتا ہے، حالات ان کے لیے اتنے ہی سازگار ہوتے ہیں۔"

واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ کے محققین نے اکتوبر کے ایک تجزیے میں تصدیق کی کہ داعش گروپ نے اسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام کے ان حصوں میں اپنی موجودگی دوبارہ قائم کرنے کے لیے سکیورٹی افراتفری کا فائدہ اٹھایا، جو اس نے پہلے چھوڑ دیا تھا۔

ماہرین کے مطابق شام کے ساتھ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی چالاک ترین چیزوں میں سے ایک کی نمائندگی کرتا ہےتصویر: Andrew Thomas/NurPhoto/IMAGO

دکھنے سے زیادہ بڑی ڈيل؟

شام نے داعش کے خلاف عالمی اتحاد میں شمولیت اختیار کی ہے، تاہم اس میں انتہا پسندانہ تشدد پر قابو پانے کے لیے جاری لڑائی سے زیادہ مضمرات پوشیدہ ہیں۔

اس اقدام سے شامی کرد گروپوں پر بھی اثر پڑے گا جو شام کے شمالی حصوں پر قابض ہیں اور جو دمشق میں حکومت کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں، کہ وہ شام کے نئے سیاسی نظام میں کیسے اور کہاں فٹ ہو سکتے ہیں۔

خانہ جنگی کے دوران شام کے کرد نیم آزاد تھے اور مرکزی کرد گروپ، سیریئن ڈیموکریٹک فورسز ایس ڈي ایف نے 2014 سے 2019 کے درمیان داعش کے خلاف لڑنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ایس ڈی ایف کے پاس اب بھی ایسے بڑے کیمپوں اور کئی جیلوں کا انتظام ہے، جس میں ایک تخمینے کے مطابق داعش کے 45 ہزار ارکان اور ان کے خاندان کے لوگ موجود ہیں۔

نتیجے کے طور پر یہ کرد گروپ خطے میں امریکہ کا سب اہم شراکت دار بن گیا اور آئي ایس سے لڑنے کے لیے امریکہ سے فنڈنگ، اسلحہ اور تربیت بھی حاصل کی۔

لیکن اب جب کہ شامی حکومت بھی داعش گروپ کے خلاف جنگ میں ایک باضابطہ کردار ادا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، اس معاملے میں ایس ڈي ایف کو جو خصوصی حیثیت حاصل تھی اسے، نقصان پہنچے گا۔ محققین کے مطابق اس طرح شامی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں اس گروپ کی قوت بھی کمزور ہو جائے گی۔ 

لیکن یہ دمشق اور ایس ڈی ایف کے درمیان بہتر تعلقات کا باعث بھی بن سکتی ہے، آئی سی سی ٹی کی مہرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا۔ "ایس ڈی ایف 'آئی ایس' کا مقابلہ کرنے میں اہم رہا ہے اور میں نہیں سمجھتی کہ الشرع کو داعش مخالف اتحاد میں شامل ہوتے ہوئے دیکھ کر وہ ایک قدم پیچھے ہٹے گی۔ امکان ہے کہ دمشق کی حکومت داعش کے ساتھ لڑائی میں ایس ڈی ایف کو اپنے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش کرے گی، جو ان سے لڑنے کا کافی تجربہ رکھتی ہے۔"

روئٹرز نے ایسی افواہوں کی بھی اطلاع دی ہے کہ شام کے اتحاد میں شامل ہونے کے نتیجے میں امریکہ دمشق کے قریب ایک فوجی اڈہ قائم کر سکتا ہےتصویر: Bashir Daher/IMAGO

گزشتہ ایک ہفتے کے دوران خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے ایسی افواہوں کی بھی اطلاع دی ہے کہ شام کے اتحاد میں شامل ہونے کے نتیجے میں امریکہ دمشق کے قریب ایک فوجی اڈہ قائم کر سکتا ہے۔

مقامی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ "آئی ایس" کے خلاف عالمی اتحاد میں شامل ایک وفد نے شام کے صحرا میں دمشق سے تقریباً 80 کلومیٹر دور السین ایئر بیس کا دورہ کیا ہے۔ یہ افواہیں بھی ہیں کہ دمشق میں ٹرمپ ہوٹل یا ٹاور بنایا جا سکتا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایک نیا امریکی اڈہ بعض امریکی حلقوں میں الشرع کے شدت پسند گروپوں سے اپنے سابقہ ​​روابط کے بارے میں شکوک و شبہات کو ختم کر دے گا اور ساتھ ہی اسرائیل کے لیے خطرہ بننے کے بارے میں اس کے خدشات کو بھی دور کر دے گا۔ اس طرح کی امریکی موجودگی شام میں ایران، روس اور حتیٰ کہ ترکی جیسے دوسرے ممالک کا اثر ورسوخ بھی کم کر دے گی۔

مہرا کا کہنا ہے، "یہ بڑی تصویر کا ایک حصہ ہے۔۔۔۔ میرے خیال میں یہ علامت سے زیادہ ہے۔"

جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں سیاسیات اور بین الاقوامی امور کے پروفیسر مارک لنچ نے اس ہفتے فارن پالیسی میگزین میں لکھا، "تمام نشانیاں نئے شام کو واشنگٹن کی زیر قیادت علاقائی ترتیب میں مضبوطی سے ضم کرنے کے امریکی ویژن کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔"

لنچ نے اپنے ذاتی بلاگ میں مزید کہا کہ یہ "مشرق وسطیٰ میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی چالاک ترین چیزوں میں سے ایک کی نمائندگی کرتا ہے۔"

لنچ لکھتے ہیں،"الشرع کی ریاستی تعمیر کی کوششوں کے لیے اسرائیل امریکہ کی زیرقیادت اس حمایت سے باہر کھڑا ہے۔"

لنچ نے لکھا، "اگر امریکہ واقعی دمشق میں ایک فضائی اڈہ قائم کرتا ہے، تو اسے جلد ہی اس حقیقت سے نمٹنے پر مجبور ہونا پڑے گا کہ شام کے لیے اس وقت سب سے زیادہ خطرناک اور غیر مستحکم کرنے والا بیرونی خطرہ اسرائیل ہے۔ اس سے شام کو امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ترجیحات میں ہلکی سی برتری حاصل ہو سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو اس کے خطے کے لیے وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔"

ص ز/ ج ا (کیتھرین شیئر)

کیا شام اور لبنان اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہے ہیں؟

02:34

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں