1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آفاتشام

شامی زلزلہ متاثرین: سیاست پہلے، امداد بعد میں؟

9 فروری 2023

شامی باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں زلزلے سے تباہی کے بعد متاثرین کو امداد پہنچانے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔ اسد حکومت تباہی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی امداد کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی تاک میں ہے۔

Syrien | Erdbeben
تصویر: Firas Makdesi/REUTERS

سحر ہونے میں زیادہ دیر نہیں گزری تھی جب پہلے زلزلےکے جھٹکوں نے خولہ اور اس کے دو بھائیوں کو نیند سے بیدار کر دیا۔  یہ خاندان شمال مغربی شام کے صوبے ادلب میں رہتا ہے، جو پیر کی صبح ترکی اور شام میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے مرکز کے قریب واقع علاقہ ہے۔

47 سالہ خولہ نے فون پر ڈی ڈبلیو کو بتایا،''ہم بہت خوفزدہ تھے۔ پہلے تو ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ہمارے گھر سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ میرے دونوں بھائی بیمار ہیں اور باہر موسم جمادینے والی سردی تھی۔ اور پھر بھی ہم جا بھی کہاں سکتے تھے؟‘‘

ترکی اور شام میں آنے والے زلزلوں سے تاریخی مقامات بشمول حلب کے تاریخی مرکز کو نقصان پہنچاتصویر: LOUAI BESHARA/AFP

اس خاندان نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر گھر کے اندر رہنے اور حالات میں بہتری کے انتظار کا فیصلہ کیا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اگرچہ ان کی رہائشی  عمارت زلزلے سے لرزی  لیکن وہ کھڑی رہی۔

خولہ نے آگے کہا، ''یہاں بہت سے گھروں کی ساخت کو نقصان پہنچا ہے اور ان کے منہدم ہونے کا خطرہ ہے۔ لیکن یہاں کوئی متبادل ہنگامی اور محفوظ رہائش نہیں ہے۔ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے (مزید زلزلوں کے) خوف سے پچھلی رات سڑک پر یا اپنی گاڑیوں میں گزاری۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ رگوں میں خون جما دینے والی سردی کے باوجود یہ سب ہو رہا ہے۔

خولہ نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اپنا پورا نام نہ بتانے کو ترجیح دی کیونکہ وہ شام کے ان آخری علاقوں میں سے ایک میں رہتی ہیں، جو شامی آمر بشار الاسد کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ ترکی کی سرحد کے قریب شامی صوبے ادلب کو ملکی خانہ جنگی میں حصہ لینے والے حزب اختلاف کے جنگجو چلا رہے ہیں۔ یہ علاقہ شامی حکومت اور روسی فوج کے مسلسل حملوں کی زد میں ہے۔ درحقیقت زلزلے کے جھٹکوں کے فوراً بعد شامی افواج نے حزب اختلاف کے زیر قبضہ قصبے ماریہ پر گولہ باری کی۔

برسوں کی لڑائی کے نتیجے میں یہاں کے بنیادی ڈھانچے کو پہلے ہی بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ یہاں  طبی سامان، امدادی خدمات کی شدید کمی ہے اور یہاں رہنے والے بہت سے لوگوں کا انحصار بین الاقوامی امداد پر ہے۔

امداد کی ترسیل میں چیلنج

باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں سے باہر رہنے والے مقامی لوگ بھی زلزلے سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ شمالی شام میں باغیوں کے زیر قبضہ اور حکومت کے زیر کنٹرول دونوں علاقوں سے مرنے والوں کی تعداد پہلے ہی ہزاروں میں ہے اور اس میں اضافے کا امکان ہے۔

فرینکفرٹ میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم میڈیکو انٹرنیشنل کے لیے شمالی شام میں امداد پہنچانے میں مدد کرنے والی انیتا سٹاروستا نے کہا کہ ان علاقوں میں ہنگامی خدمات فراہم  کرنے میں بہت سے چیلنج درپیش ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ حلب جیسی جگہوں پر مدد پہنچانا، جہاں پر اسد حکومت کا کنٹرول ہے، مشکل ہے۔‘‘  اسٹاروستا نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان علاقوں میں کوئی بھی اسد حکومت کے ساتھ بین الاقوامی امداد کو مربوط نہیں کر سکتا۔

زلزلے میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہےتصویر: Aaref Watad/AFP

اسٹاروستا کے مطابق، ''یہ پریشانی کا باعث ہےکیونکہ ہم ماضی کے تجربے سے جانتے ہیں کہ تمام امدادی رقم جو کہ دمشق میں حکومت کے ذریعے جاتی ہے وہ بھی حکومت کی مالی معاونت میں مدد کرتی ہے۔ یہ امداد ان تنظیموں کو جاتی ہے جو اسد خاندان سے قریبی تعلق رکھتی ہیں۔‘‘

ہیمبرگ میں واقع جی آئی جی اے انسٹی ٹیوٹ آف مڈل ایسٹ اسٹڈیز کے ایک سینئیر ریسرچ فیلو آندرے بینک نے تصدیق کی کہ یہ وہ چیز ہے، جو کووڈ انیس کے وبائی مرض کے دوران بہت واضح ہوئی تھی۔ اس عالمی وبا کے دوران اسد حکومت نے ویکسین کی درآمد کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی اور انہیں صرف ان گروپوں میں تقسیم کیا جو اس کے پسندیدہ تھے ۔ ان میں اپوزیشن کے زیر کنٹرول علاقے شامل نہیں تھے۔

بینک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''یہ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ(اسد) کی حکومت کتنی منتخب ہے اور وہ اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے کس طرح امداد کا استعمال کرتی ہے۔ انہوں نے کہا، ''بنیادی طور پر صرف ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مغربی ریاستیں شامی حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کر سکتیں۔‘‘

 اسد حکومت کی موقع پرستی

زلزلہ آنے کے چند ہی دن بعد یہ واضح ہو چکا ہے کہ شامی حکومت کس طرح تباہی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی امید رکھتی ہے۔  اسد حکومت کے بہت قریب سمجھی جانے والی ایک امدادی تنظیم شامی عرب حلال احمر نے مطالبہ کیا ہے کہ اسد حکومت کے خلاف پابندیاں ہٹا دی جائیں تاکہ امدادی کام کرنے میں آسانی ہو۔ آندرے بینک کے مطابق ''یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ کس طرح دمشق میں سیاسی اشرافیہ اس تباہی کو حکمت عملی کے ساتھ استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔‘‘

ان وجوہات کی بنا پر  شام میں باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں امداد پہنچانے میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔  ان علاقوں میں تقریباً 48 لاکھ لوگ رہتے ہیں اور اس آفت سے پہلے بھی اس علاقے میں رسد یا امداد پہنچانا مشکل تھا۔

شام کے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں شہری مدد کے لیے امدادی رضاکاروں کے ایک گروپ وائٹ ہیلمٹ پر انحصار کر رہے ہیںتصویر: KHALIL ASHAWI/REUTERS

سرحدوں کی بندش کا خاتمہ

جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیربوک نے کہا ہے کہ ترکی اور شام کے درمیان تمام سرحدی گزرگاہوں کو کھول دیا جانا چاہیے تاکہ زلزلہ زدگان کی امداد میں تیزی لائی جا سکے۔

آندرے بینک کا کہنا ہے کہ یہ ایک عملی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا، ''اس طویل سرحد پر 20 سے زیادہ کراسنگ ہیں۔ شام کی طرف، یہ زیادہ تر اسد حکومت کے مخالف شامی ملیشیا کے زیر کنٹرول ہیں۔ یہ اعتدال پسند باغی ہیں، جو ترکی کے قریبی ساتھی ہیں۔ اس طرح کوئی بھی اسد حکومت، روس یا ایران کے ساتھ تعاون سے گریز کر سکتا ہے۔‘‘

بینک نے کہا کہ ایسا کرنے سے بین الاقوامی امدادی تنظیموں کو شام کے اپوزیشن کے زیر انتظام کچھ دوسرے حصوں میں مزید انتہا پسند اسلام پسند باغی دھڑوں سے بچنے کا موقع بھی ملے گا۔ تاہم  اس تجویز پرعمل تک  زلزلے سے متاثر ہونے والے ملک میں موجود تمام شامیوں کو بس انتظار کرنا ہوگا - اور ایسے میں زلزلے میں زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کا وقت ختم ہو رہا ہے۔

خولہ اور اس کے بھائی انہی لوگوں میں شامل ہیں، جن کے پاس ادلب میں انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ خولہ نے اپنی ٹوٹتی ہوئی آواز میں فون پر بات کرتے ہوئے کہا، ''ایک طرف یہ راکٹ حملے ہیں، دوسری طرف ایک خوفناک معاشی صورتحال ہے اور اب یہ ایک قدرتی آفت، ہمارے پاس سانس لینے یا صحت یاب ہونے کا وقت نہیں ہے، یہاں تک کہ صرف ایک بار۔ ایک انسان یہ سب کیسے برداشت کرے گا؟‘‘

یہ تحریر پہلی مرتبہ جرمن زبان میں شائع ہوئی تھی۔

ڈیانا ہوڈالی، کَیرسٹن کنِپ (ش ر ‍/ ک م)

دنیا بھر نے ترکی اور شام کو مدد کی پیش کش کر دی

02:16

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں