1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی سرزمین پر اسرائیلی حملے جاری

5 مئی 2013

اسرائیلی جنگی طیاروں نے تین روز میں دوسری بار شام میں اہداف پر بمباری کی ہے۔ خود اسرائیل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے تاہم ایران نے ان حملوں کی مذمت کی ہے جبکہ برطانیہ نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ علاقائی امن خطرے میں ہے۔

تصویر: Reuters

دونوں ہمسایہ ممالک اسرائیل اور شام کے مابین حالات کافی عرصے سے کشیدہ چلے آ رہے ہیں اور سن 2000ء میں امن مذاکرات منقطع ہونے کے بعد سے بار بار ناخوشگوار واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ آج اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ایک عوامی اجتماع کے موقع پر ان حملوں کا تو سرے سے ہی ذکر نہیں کیا البتہ اسرائیل کی حفاظت کی ضرورت پر زور دیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے مطابق اُن کے والد نے اُنہیں یہ سکھایا کہ سب سے بڑی ذمے داری اسرائیل کی سکیورٹی کو یقینی بنانا اور اس کے مستقبل کی ضمانت دینا ہے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیلی قوم کو ہر روز اور ہر گھنٹے متحد رہنا چاہیے اور وہ متحد ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہوتصویر: AFP/Getty Images

اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے ایک سابق سیکرٹری جنرل اور سیاسی تجزیہ کار آلون لیل نے کہا ہے کہ اسرائیلی فضائی حملوں کو شام کی خانہ جنگی میں اسرائیل کی مداخلت کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ آلون لیل نے کہا کہ اگر خطے میں، بالخصوص شام یا لبنان میں کسی نے واقعی یہ خیال کیا کہ یہ حملے خانہ جنگی میں براہِ راست مداخلت ہیں تو اسرائیل کے لیے ایک حقیقی مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔ تاہم اُنہوں نے کہا ، وہ امید کرتے ہیں کہ دنیا یہ سمجھ رہی ہے کہ اسرائیل درحقیقت حزب اللہ اور ایران کے خلاف ہے، نہ کہ شام کے خلاف۔

مغربی دنیا کے انٹیلیجنس ذرائع کے مطابق اسرائیل نے آج اتوار کو علی الصبح دمشق کے قریب ایک حملہ کیا، طاقتور دھماکوں نے شامی دارالحکومت کو ہلا کر رکھ دیا جبکہ آگ کے بلند ہوتے ہوئے شعلوں نے رات کو دن میں تبدیل کر دیا۔ اسرائیل ان رپورٹوں پر خاموش ہے تاہم شام نے اس یہودی ریاست پر دمشق سے شمال کی جانب واقع اُس فوجی مرکز پر حملے کا الزام عائد کیا ہے، جسے اسرائیلی جیٹ طیاروں نے تین مہینے پہلے بھی نشانہ بنایا تھا۔ مغربی انٹیلیجنس ذرائع کے مطابق اسرائیلی حملے کا ہدف وہ ڈپو تھے، جہاں فتح ایک سو دس طرز کے وہ جدید ترین ایرانی میزائل رکھے تھے، جنہیں آگے لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کو فراہم کیا جانا تھا۔

دریں اثناء ملک کے مختلف علاقوں میں شامی سکیورٹی فورسز اور باغیوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہےتصویر: Reuters

ایران نے اس دعوے کی تردید کی ہے اور شامی سرزمین پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے خطّے کے ممالک پر متحد ہو جانے کے لیے زور دیا ہے۔ ایرانی بری فورسز کے کمانڈر احمد رضا پور داستان نے کہا کہ شام اپنی طاقتور فوج اور تجربے کے ساتھ اسرائیل کے مقابلے پر اپنے دفاع کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن ضرورت پڑنے پر ایران شامی فوج کو تربیت فراہم کر سکتا ہے۔

خود شام کے سرکاری میڈیا کا موقف یہ ہے کہ یہ اسرائیلی حملے اُن باغیوں کے خلاف اسد حکومت کی فورسز کی حالیہ کامیابیوں کا رد عمل ہیں، جو مغربی دنیا کی پشت پناہی سے گزشتہ دو سال سے زائد عرصے سے اسد کا تختہ الٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ شام ان اسرائیلی حملوں پر کیا رد عمل ظاہر کرے گا۔ جنوری میں اسی طرح کے حملوں کے بعد شام نے اقوام متحدہ میں احتجاج کیا تھا اور لبنان میں شامی سفیر نے ایک ’غیر متوقع‘ فیصلے کا وعدہ کیا تھا تاہم کوئی براہِ راست جوابی فوجی کارروائی عمل میں نہیں آئی۔

اِدھر برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے ان حملوں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ پورے عرب خطّے کا امن خطرے میں ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر اس ضرورت پر زور دیا کہ شامی باغیوں کو ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی ختم کی جانی چاہیے۔

(aa/km(reuters

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں