شامی سرزمین پر ترکی کا فوجی آپریشن جاری، مزید ٹینک روانہ
25 اگست 2016نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق شمالی شام کے سرحدی شہر جرابلس اور اُس کے آس پاس جاری آپریشن ’فرات شِیلڈ‘ کا مقصد شدت پسند ملیشیا ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو ترک سرحد کے قریبی شامی علاقوں سے نکال باہر کرنا اور کُرد جنگجوؤں کو مزید علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے سے روکنا ہے۔
شامی اپوزیشن کے باغی، جنہیں ترکی کے خصوصی دستوں، ٹینکوں اور جنگی طیاروں کی بھی مدد حاصل ہے، ایک روز قبل کسی قابل ذکر مزاحمت کا سامنا کیے بغیر جرابلس اور اُس کے ایک مضافاتی گاؤں میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ جرابلس ترک سرحد کے قریب داعش کا آخری بڑا گڑھ تھا۔ ترکی کی امریکی پشت پناہی سے اپنے جنوبی ہمسایہ ملک میں پیشقدمی کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
ایک ترک افسر نے بتایا: ’’ہمیں سڑکوں کو کھولنے کے لیے تعمیراتی مشینری کی ضرورت ہے۔ آنے والے دنوں میں ہمیں ایسی مشینوں کی اور بھی زیادہ ضرورت پڑے گی۔ شامی سرزمین پر بکتر بند گاڑیاں بھی ہمارے کام آ سکتی ہیں۔ ضرورت پڑنے پر ہم اُنہیں میدان میں لا سکتے ہیں۔‘‘
بدھ کے روز ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اس امر کی تصدیق کی کہ جرابلس سے داعش کو نکالا جا چکا ہے اور اب یہ سرحدی قصبہ اُن شامی باغیوں کے کنٹرول میں ہے، جن میں سے زیادہ تر عرب اور ترکمان ہیں۔ ایردوآن کے مطابق یہ آپریشن داعش کے ساتھ ساتھ کُرد ملیشیا وائی پی جی کے بھی خلاف ہے، جس کی بڑھتی ہوئی فتوحات نے ترکی کو تشویش میں مبتلا کر دیا تھا۔
ترکی وائی پی جی کو اُس کُرد ملیشیا ہی کی توسیع شُدہ شکل سمجھتا ہے، جو تین عشروں سے ترک سرزمین پر برسرِپیکار ہے۔ اسی معاملے پر انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان بھی اختلافات ہیں کیونکہ امریکا شامی کُردوں کو داعش کے خلاف جنگ میں ایک اہم حلیف کے طور پر دیکھتا ہے۔
ترک وزارتِ خارجہ کے ذرائع کے مطابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے ٹیلی فون پر اپنے ترک ہم منصب مؤلود چاوُش اولُو کو بتایا کہ وائی پی جی کے کُرد جنگجو اب واپس فرات کے مشرقی کنارے پر چلے گئے ہیں۔ ترکی دریائے فرات کو کُردوں کے لیے ایک سرخ لائن یعنی ایک ایسا مقام قرار دیتا ہے، جہاں سے اِن کُردوں کو آگے نہیں آنا چاہیے۔
ایک روز قبل ترکی کا دورہ کرنے والے امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے بھی یہ کہتے ہوئے ترکی کے خدشات دور کرنے کی کوشش کی تھی کہ شام میں کُردوں کا کوئی الگ علاقہ وجود میں نہیں آئے گا اور شام کی علاقائی سالمیت برقرار رہے گی۔