شامی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مزید 34 مظاہرین ہلاک
20 اگست 2011نماز جمعہ کے بعد مختلف شہروں کی سڑکوں پر مارچ کرنے والے مظاہرین نے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے لیے اپنا احتجاج جاری رکھتے ہوئے زبردست نعرے بازی کی۔ صدر بشار الاسد کی طرف سے مظاہرین کے خلاف آپریشن کے خاتمے کے اعلان کے باوجود سکیورٹی فورسز نے اپنا کریک ڈاؤن جاری رکھا۔
دریں اثناء روس اور ترکی نے امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے کیے گئے ان مطالبات کو مسترد کیا ہے، جن میں بشارالاسد سے حکومت چھوڑنے کا کہا گیا تھا۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کی جانب سے بشار الاسد حکومت پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے مظاہرین کو ’دیکھتے ہی گولی مار دینے‘ کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔
دوسری جانب سیاسی محاذ پر شام کے ’انقلابی بلاک‘ میں شامل مختلف اپوزیشن گروپوں نے ایک مرتبہ پھر حکومت کے خاتمے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے رواں برس مارچ کے وسط سے اب تک سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے دو ہزار سے زائد مظاہرین کو خراج عقیدت پیش کیا۔
شام میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نگاہ رکھنے والی ایک تنظیم کے مطابق جنوبی صوبے درعا میں سکیورٹی فورسز نے ایک گیارہ سالہ لڑکے اور ایک 72 سالہ معمر شخص کے علاوہ 15 افراد کو ہلاک کیا۔
شام میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق چھ افراد کو حمص کے علاقے میں بھی ہلاک کیا گیا جبکہ ایک شخص دارالحکومت دمشق کے ایک نواحی علاقے میں جاں بحق ہوا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق جمعے کے روز 25 دیگر افراد کو زخمی حالت میں مختلف ہسپتالوں میں بھی منتقل کیا گیا۔ دوسری جانب شام کے سرکاری میڈیا نے ہلاکتوں کی ذمہ داری ’نامعلوم مسلح افراد‘ پر عائد کی ہے۔ شام میں بین الاقوامی میڈیا پر عائد پابندیوں کی وجہ سے ہلاکتوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔
واضح رہے کہ صرف ایک روز قبل صدر بشار الاسد نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کو یقین دلایا تھا کہ مظاہرین کے خلاف فوجی آپریشن روک دیا گیا ہے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : امتیاز احمد