1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی شہر حلب ميں آج تين کار بموں کے دھماکے

3 اکتوبر 2012

شام کے شہر حلب ميں آج تين زبردست بم دھماکے ہوئے۔ دار الحکومت دمشق ميں بھی باغيوں اور حکومت کے درميان لڑائی جاری ہے۔

تصویر: Reuters

آج شام کے دوسرے سب سے بڑے شہر اور تجارتی مرکز حلب کو تين بم دھماکوں نے ہلا کر رکھ ديا۔ اطلاعات کے مطابق ان دھماکوں ميں کم از کم 48 افراد ہلاک اور تقريباً ايک سو کے قريب لوگ زخمی ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں کی اکثريت فوجيوں کی ہے۔

حلب ميں پہلے دو بم تقريباً يکے بعد ديگرے پھٹے۔ يہ دھماکے فوجی افسران کے ايک کلب اور ايک ہوٹل کے علاقے ميں ہوئے۔ اس کے کچھ دير بعد ہی حلب کے پرانے شہر کے گيٹ کے قريب ہی ايک تيسرا بم دھماکہ ہوا۔

دوسری جانب شام کے سرکاری ٹيلی وژن چينل الاخباريہ نے ان بم دھماکوں کی ذمہ داری ’دہشت گردوں‘ پر ڈالی ہے اور ہلاکتوں کی تعداد 31 بتائی ہے۔ شامی حکومت پچھلے سال مارچ سے ہونے والی لڑائی کا ذمہ دار دہشت گردوں کو ٹھہراتی ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ وہ مسلح ہيں اور اُن کی پشت پر غير ملکی قوتيں ہيں۔

حلب ميں بم دھماکوں کی تباہیتصویر: Reuters

حلب ميں موقع پر موجود خبر ايجنسی اے ايف پی کے ايک رپورٹر نے کہا کہ دھماکے کے نتيجے ميں فوجی افسروں کے کلب کے قريب واقع ہوٹل کا کچھ حصہ بھی تباہ ہو گيا۔ قريب ہی واقع ايک اور ہوٹل کے ايک ملازم نے اے ايف پی کو بتايا کہ اُس نے دو زبردست دھماکے سنے اور اس کے ساتھ ہی ايسا معلوم ہوا جيسے کہ جہنم کے دروازے کھل گئے ہوں۔ اُس نے گہرا دھواں اٹھتے ہوئے ديکھا اور فٹ پاتھ پر اُس نے ايک عورت کی مدد کی جس کی ٹانگيں اور بازو دھماکے سے الگ ہو گئے تھے۔ فوجی کلب سے ايک بلاک دور واقع ايک دکان کے مالک نے کہا کہ اُس نے ملبے سے ايک بچے کو نکالا جس کی ايک ٹانگ الگ ہو چکی تھی۔ دھماکوں سے کم از کم دو عمارتيں مکمل طور پر تباہ ہو گئيں تھيں اور لوگ زخميوں کو ملبے سے نکال رہے تھے۔

جنگ زدہ دمشق کا ايک منظرتصویر: picture-alliance/dpa

شام کی خانہ جنگی ميں رواں سال اگست سے بم کے شديد دھماکے ہو رہے ہيں جبکہ حلب ميں جاری جنگ نے مزيد شدت اختيار کر لی ہے۔ حکومت نواز اخبار الوطن نے کہا کہ مزيد فوج حلب روانہ کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب دارالحکومت دمشق کے مغرب ميں واقع قدسيہ ميں آج حکومتی فوج نے ايک بڑا فوجی آپريش شروع کيا ہے۔ قدسيہ اور حامے ميں حکومت کی مخالفت بہت شديد ہے۔

اقوام متحدہ کے سکريٹری جنرل کے نائب ايلياسن نے کہا ہے کہ انہيں معلوم نہيں کہ کيا عرب ليگ اور اقوام متحدہ کے مندوب لخصر براہيمی شام ميں داخل ہو سکيں گے يا نہيں ليکن اميد ہے کہ اسد حکومت تشدد ميں کمی پر آمادہ ہو جائےگی۔

sas, as/AFP

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں