شامی شہر عین العرب (کوبانی) پر قبضے کی جنگ فیصلہ کُن مرحلے میں داخل
6 اکتوبر 2014اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کو اس پیش قدمی کے دوران اتوار کے روز ایک کرد خاتون کے خود کُش حملے کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اِس کے علاوہ کرد فائٹرز بھی شام اور ترکی کی سرحد پر واقع شہر عین العرب یا کوبانی کے دفاع کے لیے اپنا زور لگا رہے ہیں لیکن انہیں عسکریت پسندوں کی منظم اور وسیع کارروائیوں کی وجہ سے پسپائی کا سامنا ہے۔ امریکی فضائی حملوں سے سنی عسکریت پسندوں کا کوبانی کی جانب مارچ ضرور سُست ہوا لیکن اُن کے بڑھتے قدم رُکے نہیں ہیں۔ سنی انتہا پسند عراق و شام کے علاقوں پر قبضے کے بعد کوئی تین ہفتے قبل، سولہ ستمبر سے کوبانی کو اپنے کنٹرول میں لانے کی جنگ شروع کیے ہوئے ہیں۔
کوبانی شہر کے پہلو میں واقع ایک چوٹی پر اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں نے قبضہ کر لیا ہے اور اب وہ اپنی شیلنگ شہر پر کرنے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں۔ مِشتنُور نامی پہاڑی پر جہادیوں نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب قبضہ کیا تھا۔ اِس پہاڑی سے کوبانی کا سارا شہر دکھائی دیتا ہے۔ کوبانی کے ایک مقامی شہری ادریس نہسین کا کہنا ہے کہ سنی عسکریت پسند اب شہر کی بیرونی حدود سے صرف ایک کلومیٹر کی دوری پر ہیں۔ نہسین کا مزید کہنا تھا کہ فضائی حملوں سے انہیں شہر میں داخل ہونے سے روکنا ناممکن ہے۔ کوبانی کے شہریوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کرد فائٹرز اور امریکی فضائی کارروائی میں تعاون کا فقدان ہے اور اِس باعث جہادیوں کی پیش قدمی کو روکا نہیں جا سکا ہے۔
شام کے حالات و واقعات پر نگاہ رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کو کوبانی شہر کے مشرق میں ایک خودکُش خاتون بمبار کا بھی سامنا کرنا۔ آبزرویٹری کے مطابق خود کُش حملے میں یقینی طور پر ہلاکتیں ہوئی ہیں لیکن اُن کی تعداد کا تعین کرنا ممکن نہیں ہے۔ لندن میں قائم آبزرویٹری کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمان کے مطابق خود کُش حملہ آور کرد خاتون خیال کی گئی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ برطانوی رضاکار ایلن ہیننگ کے قتل کے بعد کوبانی کی جنگ کو بہت زیادہ بین الاقوامی اہمیت حاصل ہوئی ہے۔
اسلامک اسٹیٹ کے حملہ آوروں کی تازہ پیش قدمی کے بعد، عین العرب کے اندر مقیم خوفزدہ شہریوں تک اب جہادیوں کی شیلنگ کی آوازیں پہنچنا شروع ہو گئی ہیں۔ سیریئن آبزرویٹری کے مطابق کرد فائٹرز اور امریکی فضائی حملوں میں مزید 33 جہادیوں ہلاک ہوئے ہیں۔ اسی طرح کم از کم 23 کرد فائٹرز بھی کوبانی کے دفاع میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ کوبانی اور اِس کے گردونواح سے جہادیوں کی پیش قدمی کے بعد ایک لاکھ 80 ہزار کرد اپنا گھر بار چھوڑ کر ترکی میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ابھی بھی اِس بات کا خوف ہے کہ کوبانی میں داخل ہو کر عسکریت پسند شہریوں کا قتل عام شروع کر سکتے ہیں۔